اسلام آباد —
نواز شریف حکومت نے چند مصالحت کاروں کے ذریعے پاکستانی طالبان کے ساتھ ایک رابطے کا نظام قائم کیا ہے جس کے تحت ایک وفاقی وزیر کے مطابق شدت پسندوں کی ممکنہ مذاکرات کے بارے میں ’’سوچ اور تحفظات‘‘ کا اندازہ لگایا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے ہفتہ کو خصوصی گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بتایا کہ ’’محب وطن‘‘ افراد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں مدد کر رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے ثالثوں کی شناخت یا دیگر معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔
’’یہ کرتے کیا ہیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ محب وطن پاکستانی ہیں اور محب وطن پاکستانی صحافی ہوسکتے ہیں۔ علماء، تاجر یا سیاست دان بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ پاکستان کو پرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
اس سے پہلے افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان قبائلی عمائدین، سیاست دان اور مذہبی شخصیات نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ تاہم 2007ء میں چند صحافیوں نے اس وقت کی پرویز مشرف انتظامیہ اور اسلام آباد کی لال مسجد میں محصور خطیب اور اس کے جنگجو ساتھیوں کے درمیان صلح کروانے کی نا کام کوشش کی تھی۔
حکومت کے ترجمان پرویز رشید نے اس تاثر کو رد کیا کہ نواز شریف انتظامیہ شدت پسندوں سے صرف مذاکرات ہی چاہتی ہے، اور دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنے سے متعلق سیاسی قائدین کے اجلاس کے انعقاد میں تاخیر کی بھی یہی وجہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ طالبان سے ’’بلواسطہ‘‘ رابطے کا قیام مجوزہ اعلیٰ سطحی اجلاس کی تیاری کا ایک حصہ ہے۔
’’بات چیت ہونی چاہیے یا نہیں اس کا فیصلہ کیسے ہوگا جب تک ہم ان کا ذہن پڑھ نہیں لیتے۔ پارلیمانی لیڈرز بھی کیسے اس کا جواب دیں گے جب تک ہم انھیں نہیں بتاتے کہ ان کا ذہن ہے کیا جن کے ساتھ ہم بات کرنا چاہتے یا نہیں۔‘‘
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی ’’سوچ، تحفظات اور حدود‘‘ جاننے کے بعد ہی اس سے متعلق بہتر فیصلہ کیا جا سکے گا۔
حکومت کی جانب سے شدت پسندوں سے رابطے کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب حال ہی میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وزیر اعظم کی طرف سے شدت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت کا خیر مقدم کرنے پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے گروپ ’’پنجابی طالبان‘‘ کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت القاعدہ سے منسلک جنگجو تنظیم میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق حکومت کے اقدامات کے بارے میں پارلیمان میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی وقتاً فوقتاً مطلع کیا جاتا ہے۔
’’کانفرنس تو ایک نقطہ عروج ہوگا جو باقاعدہ فیصلہ کرے گی اور اس کا اعلان کیا جائے گا مگر اس میں جو ہونا ہے اور وہ جن مقاصد کے لیے ہو رہی ہے اس بارے میں وزیر داخلہ پارلیمانی لیڈروں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں کہہ چکی ہیں کہ وہ شدت پسندی کے خلاف نواز حکومت کے ٹھوس موقف کی بھرپور حمایت کریں گی۔
شدت پسندی کے خلاف تجویز کردہ ’’مربوط سیکورٹی پالیسی‘‘ کا اعلان بھی حکومت نے ابھی کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے ہفتہ کو خصوصی گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بتایا کہ ’’محب وطن‘‘ افراد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں مدد کر رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے ثالثوں کی شناخت یا دیگر معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔
’’یہ کرتے کیا ہیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ محب وطن پاکستانی ہیں اور محب وطن پاکستانی صحافی ہوسکتے ہیں۔ علماء، تاجر یا سیاست دان بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ پاکستان کو پرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
اس سے پہلے افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان قبائلی عمائدین، سیاست دان اور مذہبی شخصیات نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ تاہم 2007ء میں چند صحافیوں نے اس وقت کی پرویز مشرف انتظامیہ اور اسلام آباد کی لال مسجد میں محصور خطیب اور اس کے جنگجو ساتھیوں کے درمیان صلح کروانے کی نا کام کوشش کی تھی۔
حکومت کے ترجمان پرویز رشید نے اس تاثر کو رد کیا کہ نواز شریف انتظامیہ شدت پسندوں سے صرف مذاکرات ہی چاہتی ہے، اور دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنے سے متعلق سیاسی قائدین کے اجلاس کے انعقاد میں تاخیر کی بھی یہی وجہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ طالبان سے ’’بلواسطہ‘‘ رابطے کا قیام مجوزہ اعلیٰ سطحی اجلاس کی تیاری کا ایک حصہ ہے۔
’’بات چیت ہونی چاہیے یا نہیں اس کا فیصلہ کیسے ہوگا جب تک ہم ان کا ذہن پڑھ نہیں لیتے۔ پارلیمانی لیڈرز بھی کیسے اس کا جواب دیں گے جب تک ہم انھیں نہیں بتاتے کہ ان کا ذہن ہے کیا جن کے ساتھ ہم بات کرنا چاہتے یا نہیں۔‘‘
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی ’’سوچ، تحفظات اور حدود‘‘ جاننے کے بعد ہی اس سے متعلق بہتر فیصلہ کیا جا سکے گا۔
حکومت کی جانب سے شدت پسندوں سے رابطے کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب حال ہی میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وزیر اعظم کی طرف سے شدت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت کا خیر مقدم کرنے پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے گروپ ’’پنجابی طالبان‘‘ کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت القاعدہ سے منسلک جنگجو تنظیم میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق حکومت کے اقدامات کے بارے میں پارلیمان میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی وقتاً فوقتاً مطلع کیا جاتا ہے۔
’’کانفرنس تو ایک نقطہ عروج ہوگا جو باقاعدہ فیصلہ کرے گی اور اس کا اعلان کیا جائے گا مگر اس میں جو ہونا ہے اور وہ جن مقاصد کے لیے ہو رہی ہے اس بارے میں وزیر داخلہ پارلیمانی لیڈروں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں کہہ چکی ہیں کہ وہ شدت پسندی کے خلاف نواز حکومت کے ٹھوس موقف کی بھرپور حمایت کریں گی۔
شدت پسندی کے خلاف تجویز کردہ ’’مربوط سیکورٹی پالیسی‘‘ کا اعلان بھی حکومت نے ابھی کرنا ہے۔