رسائی کے لنکس

'احمدی ہونے کا پتا چلے تو لوگ اشتعال میں تو آتے ہیں'


گزشتہ سال چکوال میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر مشتعل افراد نے دھاوا بول کر نقصان پہنچایا تھا
گزشتہ سال چکوال میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر مشتعل افراد نے دھاوا بول کر نقصان پہنچایا تھا

پاکستان میں 19 سال کے بعد ہونے والی مردم شماری رواں ہفتے مکمل ہونے جا رہی ہے اور اس عمل کو ملک میں آباد اقلیتوں سمیت سب ہی حلقوں کی طرف سے کم و بیش احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔

لیکن احمدیہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں مردم شماری کے عمل میں شفافیت انتہائی ضروری ہے وہیں اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ اس برادری سے تعلق رکھنے والوں کی معلومات متعلقہ ادارے کے پاس ہی محفوظ رہے بصورت دیگر ان کے لیے پہلے سے خطرناک ماحول مزید خراب ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں احمدی آئینی طور پر غیر مسلم ہیں اور اس برادری کے لوگ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے ہیں اور ایسا کرنے کی صورت میں ان کے لیے قانون میں قید کی سزائیں ہیں۔

احمدیوں کے پاکستان میں مرکزی ترجمان سلیم الدین نے پیر کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ احمدیوں نے بھی پوری طرح سے مردم شماری میں حصہ لیا ہے اور یہ ملک کے لیے ایک اچھا قدم ہے۔ لیکن ان کے بقول مردم شماری میں مذہب سے متعلق معلومات ان کے لیے ایک پریشان کن صورتحال پیدا کر دیتی ہے۔

"کوئی خاص مسئلہ تو ابھی تک درپیش نہیں رہا لیکن چونکہ اس میں مذہب کا بھی بتانا ہوتا ہے تو بہرحال ہوتا یہ ہے کہ کسی کو نہیں پتا تو اسے بھی پتا لگ جاتا ہے (کہ یہ شخص احمدی ہے)۔۔۔ پاکستان کا قانون ہے کہ اگر میں اپنے آپ کو مسلمان کہوں گا تو سزا ہوگی اگر نہیں کہوں گا تو احمدی لکھا جائے گا تو احمدی ہونے کا پتا چلے تو لوگ یہاں اشتعال میں آ جاتے ہیں۔"

احمدیوں کے نام دیگر مسلمانوں جیسے ہی ہوتے ہیں اس لیے عموماً اطلاعات کے مطابق مردم شماری کا عملہ خود ہی مذہب کے خانے میں اسلام پر نشان لگا دیتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ پانچ لاکھ احمدی آباد ہیں لیکن مردم شماری سے ان کی صحیح تعداد معلوم ہو سکے گی یا نہیں موجودہ صورتحال میں اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔

اس مسلک کے لوگ امتیازی سلوک کے شاکی رہے ہیں اور اکثر ان افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتیں بھی رونما ہوتی رہتی ہیں۔

سلیم الدین کا کہنا تھا کہ احمدیوں کی شناخت افشا ہونے کا سب سے زیادہ خطرناک مرحلہ ہر عام انتخابات سے قبل پیش آتا ہے جب الیکشن کمیشن کی طرف سے اس برادری کے افراد کی ووٹرز فہرستیں جاری کی جاتی ہیں۔

"جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو ہم تو کہہ کہہ کر کھپ گئے ہیں حکومت سے کہ ہماری ووٹر فہرستیں علیحدہ سے شائع کرتے ہیں الیکشن کمیشن میں تو مردم شماری سے زیادہ ہمیں اس سے دقت ہوتی ہے کیونکہ اس میں ہر بندے کا نام اور پتا بھی لکھا ہوتا ہے۔ مردم شماری والے تو ابھی معلومات لے کر گئے ہیں۔۔۔ اس کا ڈیٹا خفیہ رہنا چاہیے۔"

حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ ملک میں آباد تمام اقلیتوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور جہاں سے بھی کسی طرح کے امتیازی سلوک کی شکایت موصول ہوتی ہے اس پر کارروائی کی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG