پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں پائی جانے والی حالیہ کشیدگی میں کمی اور اختلافی معاملات کا مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان غیر سرکاری سطح پر رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
رواں ماہ کے وسط میں افغان صحافیوں کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، جہاں اُنھوں نے مقامی صحافیوں سے بات چیت کے علاوہ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھی ملاقات کی تھی۔
افغان و پاکستانی صحافیوں کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
انھی غیر رسمی رابطوں کے سلسلے میں ان دنوں افغانستان کا ایک آٹھ رکنی وفد پاکستان کے دورے پر ہے، اس اعلٰی افغان وفد میں اراکین پارلیمنٹ، اعلیٰ امن کونسل کے رکن، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندے شامل ہیں۔
ایک غیر سرکاری ادارے ’سینیٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹیڈیز‘ کے زیر اہتمام افغان وفد نے پاکستانی اراکین پارلیمنٹ، سابق سفارت کاروں، ریٹائرڈ فوجی جنرلز سمیت دیگر سے ملاقاتیں کی۔
افغان رکن پارلیمنٹ میرویس یاسینی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتمادی کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی طرف سے افغان سرحد پر باڑ لگانے کے فیصلے پر میرویس یاسینی کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان سلامتی کے خدشات کے سبب یہ باڑ لگا رہا ہے، لیکن اُن کے بقول وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ باڑ دونوں جانب آباد لوگوں کو تقسیم کر سکے گی۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے رکن عبدالحکیم مجاہد نے آئندہ ماہ روس میں افغانستان سے متعلق کانفرنس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کے ملک میں امن کے لیے جو بھی کوشش کی جائے گی تو وہ اس کا خیر مقدم کریں گے۔
عبدالحکیم مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس وقت امن کے قیام اور خونریزی کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کی حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے ہر ممکن تعاون کو تیار ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد حملوں کی ایک نئی لہر کے بعد پاکستان نے 16 فروری سے افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد بند کر دی تھی، جو تقریباً ایک ماہ تک بند رہی۔
یہ اقدام دوطرفہ کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بھی بنا۔
جب کہ رواں ماہ پاکستان کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے کا آغاز کیا گیا اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق پہلے مرحلے میں باڑ لگانے کا کام ترجیحی بنیاد پر باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں شروع کیا گیا ہے، جہاں فوج کے مطابق سلامتی کے زیادہ خدشات ہیں۔
پاکستانی حکام کہہ چکے ہیں کہ باڑ لگانے کا مقصد دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکنا ہے۔