انسداد پولیو پروگرام سے متعلق مشاورت دینے والے ایک بین الاقوامی گروپ نے کہا ہے کہ پولیو کے موذی وائرس پر قابو پانے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔
عالمی ادارہ صحت کے زیر انتظام قائم ٹیکنیکل ایڈوائزی گروپ "ٹیگ" نے اسلام آباد میں متعلقہ پاکستانی عہدیداروں سے مشاورت کی اور انسداد پولیو کے لیے حکومت کی گزشتہ چھ ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔
گروپ کے سربراہ جین مارک اولیو کا کہنا ہے کہ پاکستان نے قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے لیکن یہ اکیلے اس وائرس پر قابو نہیں پاسکے گا اور اس ضمن میں افغانستان سے زیادہ مربوط تعاون کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو ملک ہیں جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال پولیو سے متاثرہ 54 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ 2014ء میں یہ تعداد 306 تھی۔
پولیو وائرس کے پھیلاؤ پر 80 فیصد سے زائد تک قابو پانے کی وجوہات میں ان علاقوں تک انسداد پولیو ٹیموں کی رسائی ہے جہاں پہلے سلامتی کے خدشات کے باعث بچوں کو یہ ویکسین نہیں پلائی جا سکتی تھی۔
لیکن حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی آمدورفت کی وجہ سے یہ پولیو وائرس ایک سے دوسرے ملک میں منتقل ہو رہا ہے۔
وزیر مملکت برائے قومی صحت سائرہ افضل تارڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت پوری تندہی سے اس وائرس پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور مشاورتی گروپ کی طرف سے کی جانے والی نشاندہی پر بھی توجہ دی جائے گی۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ رواں سال پاکستان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ پر پوری طرح سے قابو پا لیا جائے گا۔
مشاورتی گروپ کے جائزہ اجلاس میں پاکستانی عہدیداروں کو کہنا تھا کہ ان کی توجہ ایسے بچوں پر بھی مرکوز ہے جو کہ کسی بھی وجہ سے پولیو ویکسین پینے سے رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یہ وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ٹیکنیکل ایڈوائزی گروپ اب صوبوں کے متعلقہ عہدیداروں سے ملاقاتیں کرے گا جس کے بعد وہ پاکستان کے لیے اپنی مزید سفارشات مرتب کرے گا۔