افغان فوج کے ایک وفد نے جمعرات کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سدرن کمانڈ کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا اور سلامتی سے متعلق اُمور پر تبادلہ خیال کیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق افغان وفد کی قیادت میجر جنرل امام نذر کر رہے تھے۔
ملاقات میں دوطرفہ سلامتی سے متعلق خدشات بشمول دوطرفہ سرحد کی سکیورٹی اور پاک افغان سرحد کی نگرانی پر تفصیلی بات چیت کی۔
بات چیت میں اس بات پر زور دیا گیا کہ امن اور استحکام کا حصول دوطرفہ تعاون ہی سے ممکن ہے۔
واضح رہے کہ افغان عسکری وفد نے یہ دورہ ایسے وقت کیا جب رواں ہفتے ہی کابل میں دہرے خودکش بم حملے میں صحافیوں سمیت 25 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کی کمیٹی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام دکھ کی اس گھڑی میں افغانستان اور اس کے عوام کے ساتھ ہیں۔
اجلاس میں وزیر اعظم کے اپریل کے اوائل میں دورہ کابل کے بعد تعلقات کی صورت حال پر غور کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کے لیے اہم قدم ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیروں کی روس میں بھی ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر نے پاکستانی ہم منصب لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورۂ کابل کے دوران طے پانے والے سات نکات پر تفصیلی بات چیت کی تھی۔
حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ ریاستوں کے درمیان اعتماد اُسی صورت حقیقت بنتا ہے جب بات چیت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔
وزیرِ اعظم عباسی کے دورۂ کابل کے دوران جن سات نکات پر اتفاق ہوا تھا اُن میں پاکستان کی طرف سے افغانوں کی زیرِ قیادت امن و مصالحت کی کوششوں کی حمایت اور دونوں ممالک کی طرف سے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہے جو مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے کو یقینی بنانا، ایک دوسرے کی سرحدوں کی سالمیت کا احترام اور کھلے عام الزام تراشی کی بجائے متعلقہ فورم پر شکایت کو اٹھانے پر بھی اتفاق کیا تھا۔