پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کی نگرانی سے متعلق اقدامات پر اختلافات اور دہشت گردی سے جڑے واقعات پر الزامات کے تبادلے کے باوجود، پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اُن کا ملک چاہتا ہے کہ پاکستانی و افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان رابطے کو موثر بنایا جائے۔
پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے اُن کا ملک چاہتا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ اور افغان انٹیلی جنس ادارے ’این ڈی ایس‘ میں تعاون بڑھے۔
’’ظاہر کہ ہم افغانستان سے جو بات چیت کر رہے ہیں کہ این ڈی ایس اور آئی ایس آئی کا آپس میں رابطہ ہو تاکہ ہم (دہشت گردی سے متعلق واقعات) کی نشاندہی کر سکیں۔ تاکہ ہم نے جو کمٹمنٹ کی ہوئی ہے کہ ہم اپنی سرزمین اُن کے خلاف استعمال نہیں کریں گے اور وہ اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس وعدے کی تکمیل تب ہی ہو سکتی ہے جب دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسوں میں مختلف سطحوں پر رابطہ ہو گا۔‘‘
گزشتہ سال پاکستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون سے متعلق مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کی شب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے کوئٹہ میں رواں ہفتے ہونے والے خودکش حملے کی مذمت کی تھی۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق افغان صدر نے کہا کہ دہشت گردی کا خطرہ ایک مشترکہ دشمن ہے جس کا خاتمہ مشترکہ کوششوں سے کیا جائے گا۔
دریں اثنا گزشتہ ہفتے افغانستان کے صوبہ لوگر میں ہنگامی لینڈنگ کرنے والے ایک پاکستانی ہیلی کاپٹر کے عملے کی بازیابی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ اس ضمن میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔
’’جہاں تک ہیلی کاپٹر کے عملے کا تعلق ہے ۔۔۔ اتنی ہمیں خبر ہے کہ وہ محفوظ ہیں اور اچھی حالت میں ہیں اور بات چیت ہو رہی مختلف سطحوں پر اُن کو جلدی بحفاظت واپس لایا جائے۔‘‘
جمعرات کو پاکستانی میڈیا کے بعض حصوں میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ہیلی کاپٹر کے عملے کو بازیاب کروالیا گیا ہے تاہم سرتاج عزیز نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
افغانستان کے صوبہ لوگر کے ایک دور دراز علاقے میں ’ہنگامی لینڈنگ‘ کرنے والا سویلین ہیلی کاپٹر پنجاب حکومت کا تھا اور اُس پر چھ پاکستانی شہریوں کے علاوہ ایک روسی انجینئر بھی سوار تھا۔ ہیلی کاپٹر کی ’لینڈنگ‘ کے بعد اُس میں سوار تمام افراد کو طالبان نے یرغمال بنا لیا۔
پاکستانی حکام کے مطابق ضروری مرمت کے لیے جانے والے اس ہیلی کاپٹر کی منزل ازبکستان سے ہوتے ہوئے روس تھی۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد کی بحفاظت بازیابی کے لیے تمام رسمی اور غیر رسمی ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں۔