پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے محنت کش ایک بار پھر بیروزگار ہوگئے ہیں؛ جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق ’لغڑی برادری‘ سے ہے یا وہ غریب و بے سہارا لوگ ہیں۔
وجوہات بیان کرتے ہوئے، ’لغڑی اتحاد‘ نے کہا ہے کہ اس کی وجہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے افغانستان سے پیدل، موٹر سائیکل یا ریڑھی کے ذریعے مال لانے کی اجازت نہ دینا ہے۔
’لغڑی اتحاد‘ کے رہنماﺅں نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ برادری کے 30 ہزار خاندانوں کو مزید فاقہ کشی سے بچانے کےلئے افغانستان سے دوسرے تاجروں کا مال پاکستان مزدوری کے ذریعے لانے کےلئے علاقے کی غربت اور بیروزگاری کو مدنظر رکھ کر قواعد و ضوابط نرم کئے جائیں۔
پاک افغان سرحد پر مال برادری کا کام کرنے والے ’لغڑی اتحاد‘ کے صدر، حبیب الرحمان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’گزشتہ چند ماہ سے پاکستان اور افغانستان کی چمن سرحد پر کام نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ضلع کے لوگ بے حد پریشان ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ علاقے میں روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ بقول اُنکے، ’’ہماری یونین کے چھ یا سات ہزار افراد یہی کام روزانہ کرتے ہیں، جو بارڈر سے چمن تک موٹر سائیکل، ریڑھی پر سامان لاد کر لاتے ہیں۔ اکثر لوگ کندھوں پر لاد کر لاتے ہیں۔ مجھے چار افراد نے بتایا ہے کہ وہ چار سو روپے کماتے ہیں۔ وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ روزانہ 100 کلو وزن کئی کلومیٹر تک لانے سے ہم بیمار ہوگئے ہیں۔ خدارا ہم لوگوں پر رحم کیا جائے‘‘۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے ’یونائٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام (یواین ڈی پی) کے رواں سال فروری میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بلوچستان کو ملک کے دیگر تین صوبوں کے مقابلے میں غریب ترین صوبہ قرار دیا گیا ہے اور بلوچستان کے غریب ترین اضلاع میں ضلع قلعہ عبداللہ پہلے نمبر پر ہے، جہاں رپورٹ کے مطابق، 96 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
پاک افغان سرحد پر روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے 15 سالہ ہدایت اللہ نے وی او اے کو بتایا کہ علاقے میں کوئی دوسرا روزگار نہ ہونے کے باعث وہ یہ سخت کام کر نے پر مجبور ہیں۔
بقول اُن کے، ’’ہمارے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی بہنیں اور بھائی ہیں۔ بس ہمارا یہ کام ہے کہ روزانہ چار، پانچ کمبل اُٹھا کر یہاں پاکستان لاتے ہیں۔ علاقے میں روزگار کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے۔ فیکٹری نہیں ہے۔ ہم لوگ مجبور ہیں کہاں جائیں۔‘‘
1997 کی مردم شماری کے مطابق، بلوچستان کے سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ چمن کی کُل آبادی ساڑھے سات لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ ضلع حالیہ خشک سالی کی لہر سے بُری طرح متاثر ہوا، جہاں ضلع کے ہزاروں زمینداروں نے بارشیں نہ ہونے اور زیر زمین پانی ختم ہونے سے مختلف میوہ جات کے باغات کے لاکھوں درخت کاٹ دیے ہیں، جس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی بیروزگار ہوگئی ہے اور متبادل روزگار کےلئے تاحال کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔