پاکستان نے ایک مرتبہ پھراس تنقید کو مسترد کیا ہے کہ اس کی طرف سے حال ہی میں اہم عسکریت پسند کمانڈروں کی گرفتاری نے پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان سمیت دوسرے جنگجوؤں کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا تھا کہ طالبان کے اعلیٰ کمانڈر ملا عبدالغنی برادر سمیت دوسرے شدت پسندوں کی گرفتاری کا افغانستان میں مصالحت کی کوششوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد بدستور کابل میں امن وسلامتی کے قیام اور مصالحت کے فروغ کے لیے ہر وہ مدد دینے کے لیے پرعزم ہے جو افغان حکومت چاہے۔
تاہم ترجمان نے کہا کہ” مصالحت یا امن بات چیت ان ہی گروپوں کے ساتھ ممکن ہوسکتی ہے جو ہتھیار ڈال کرافغانستان کے آئین کا احترام کرنے کو تیار ہوں اور عبدالباسط کے بقول القاعدہ صریحاً مختلف دیوہے“۔
خیال رہے کہ افغان حکومت کی طرف سے باغی دھڑوں کے ساتھ مصالحت کے عمل کے سلسلے میں اس ہفتے ایک اہم گروپ حزب اسلامی کے وفد نے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تھی جس کا لیڈر سابق وزیراعظم اور جنگجو سردار گلبدین حکمت یار ہے۔
اطلاعات کے مطابق گروپ نے حکومت کو ایک 15نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کی بتدریج واپسی کا مطالبہ شامل ہے۔ حزب اسلامی کے ترجمان محمد داؤد عابدی کے مطابق گروپ امن معاہدے کے سلسلے میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کا ارادہ رکھتا ہے۔
دریں اثناء امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ طالبان کمانڈروں کے ساتھ مصالحت کے لیے یہ موزوں وقت نہیں ہے کیونکہ عسکری قوت نے ابھی جنگجوؤں کو پوری طرح کمزور نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ جنگجوؤں کے ساتھ امن بات چیت یا اس کے امکانات باوجود بھی ملک میں جاری پرتشدد کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے جب کہ ہلمند صوبے میں طالبان کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی بھی جاری ہے۔