خیبرپختونخواہ میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی شہرت یافتہ کارکن کے گھر پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی تاہم وہ اس واقعے میں محفوظ رہیں۔
سوات میں مقیم تبسم عدنان نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رات دیر گئے وہ اپنے گھر کے باورچی خانے میں تھیں کہ نامعلوم مسلح افراد نے ان کے گھر پر فائرنگ کی۔ اس پر تبسم کے محافظ نے بھی جوابی فائر کیے لیکن مسلح افراد موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فوری طور پر پولیس کو مطلع کیا جب کہ اس علاقے سے رکن صوبائی اسمبلی عزیز اللہ گرام بھی جلد ہی جائے وقوع پر پہنچ گئے۔
پولیس نے اس واقعے کے بعد تبسم عدنان کے لیے حفاظتی انتظامات کو بڑھا دیا جس پر سرگرم کارکن نے اطمینان کا اظہار کیا۔
اس واقعے کے محرکات کے بارے میں تبسم عدنان کا کہنا تھا کہ وہ فی الوقت کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتیں اور ان کے بقول یہ یا تو دہشت گرد ہو سکتے ہیں یا پھر ایسے لوگ جو خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے ان کے کام سے خوش نہیں۔
تبسم عدنان نے سوات میں پہلی مرتبہ خواتین کے ایک جرگے کی بنیاد رکھی تھی جس میں خواتین اپنے مسائل پر بات چیت کیا کرتی ہیں۔ وہ متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے لیے پاکستان میں حالات اتنے سازگار نہیں اور انھیں اکثر و بیشتر دباؤ اور مہلک حملوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔
قبائلی علاقوں میں مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ایک اتحاد کے سربراہ زر علی خان آفریدی کہتے ہیں اس بارے میں حقوق کے لیے آواز بلند کرنا آسان کام نہیں ہے۔
"ہمارے ملک کے اندر خاص طور پر ہمارے صوبے میں سماجی آگاہی کم ہے اس بارے میں، دہشت گردی ہے، طالبانائیزیشن ہے اور حکومت بھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتی، ہمیں دہشت گردوں کی طرف سے بھی ڈر ہے اور ریاست کی طرف سے بھی۔"
ایسے خدشات اور تحفظات پر حکومتی عہدیداران یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ معاشرے کے سبھی طبقات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔