پاکستان کی تاریخ کے مہلک ترین دہشت گرد حملے میں ملوث چار دہشت گردوں کو بدھ کی صبح پھانسی دے دی گئی۔
یہ چاروں مجرم گزشتہ سال 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے دہشت گرد حملے میں ملوث تھےجس میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
دہشت گرد مولوی عبدالسلام، حضرت علی، مجیب الرحمن، سبیل الیاس عرف یحییٰ کو بدھ کی صبح کوہاٹ کی جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
ان مجرموں کو رواں سال اگست میں فوجی عدالت کی طرف سے آرمی پبلک اسکول، سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر ہلاکت خیز حملوں کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور دیگر تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد جب ان کی رحم کی اپیل بھی صدر ممنون حسین نے مسترد کر دی تو دو روز قبل ہی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ان کے موت کے پروانے "ڈیتھ وارنٹ" پر دستخط کیے تھے۔
پشاور اسکول حملے کے بعد نہ صرف ملک میں پھانسیوں پر عائد چھ سالہ پابندی ختم کر دی گئی۔ بعد ازاں آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے دہشت گردی کے مقدمات چلانے کے لیے دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔
ان عدالتوں سے اب تک لگ بھگ ایک درجن سے زائد دہشت گردوں کو سزائے موت یا عمر قید سنائی جا چکی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ چار دہشت گردوں کو ایک ایسے وقت پھانسی دی گئی ہے جب رواں ماہ ہی پشاور اسکول حملے میں ہلاکتوں کا ایک سال مکمل ہونے جا رہا ہے۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت یہ عزم ظاہر کر چکی ہے کہ ملک سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں جاری رہیں گی۔
پھانسیوں پر عملدرآمد شروع کیے جانے کے بعد سے پاکستان کو یورپی یونین، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے تنقید کا سامنا رہا ہے اور یہ سب حکومت سے پھانسیوں پر عملدرآمد کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ناگزیر اور وقت کی ضرورت ہے۔
پابندی ختم ہونے کے بعد سے اب تک تین سو سے زائد مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے جن میں اکثریت ان مجرموں کی ہے جو دہشت گردی کے علاوہ دیگر سنگین جرائم میں سزائے موت کے مرتکب قرار پائے گئے تھے۔