پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں سے محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پڑھے لکھے نوجوان داعش اور اس سے وابستہ شدت پسندوں کا بڑا ہدف ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے ایک تربیتی پروگرام میں شامل نوجوانوں سے خطاب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے فتنہ پھیلانے والے نقطعہ نظر سے ہوشیار رہیں۔
واضح رہے کہ لگ بھگ تین سال قبل عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضے کے بعد داعش نے اپنا اثر بڑھانے کے لیے دنیا بھر میں خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔
پاک انسٹیٹویٹ آف پیس اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فوج کے سربراہ کے اس بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عسکری قیادت کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان کی پڑھی لکھی نوجوان نسل کو شدت پسندوں سے خطرہ ہے۔
’’یہ جو اُن (جنرل قمر باجوہ) کا بیان ہے، اس سے تو ایسے ہی لگتا ہے کہ ہمارے عسکری اداروں کے پاس شواہد موجود ہیں کہ جس کی بنیاد پر اُنھیں لگتا ہے کہ داعش پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور اُن کا خاص طور پر ہدف پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔‘‘
عامر رانا کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو شدت پسندی سے دور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُنھیں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین شاہی سید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں سائبر جرائم سے متعلق ایک قانون تو ہے لیکن لیکن اُن کے بقول انتہا پسندی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف اس قانون کے موثر نفاذ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی طرف سے اگرچہ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں داعش کی منظم موجودگی نہیں ہے، اس تنظیم سے وابستہ کئی مشتبہ دہشت گرد مختلف کارروائیوں میں یا تو مارے گئے ہیں یا اُنھیں گرفتار کیا گیا۔
ملک میں دہشت گردی کے کئی واقعات کی ذمہ داری بھی ’داعش‘ یا اس سے جڑی تنظیم لشکر جھنگوی العالمی قبول کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان سے اغوا کے بعد چینی جوڑے کو قتل کرنے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔
پاکستانی عہدیدار کہتے رہے کہ افغانستان کے مشرقی علاقے میں داعش خراسان اپنے قدم جما رہی ہے اور اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
حکام کاکہنا ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں شدت پسند تنظیم داعش کے بڑھتے ہوئے اثر کو پاکستان منتقل ہونے سے روکنے کے لیے پاک افغان سرحدی علاقوں میں کارروائی کر کے سرحد کی نگرانی کو موثر بنایا جا رہا ہے۔