گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلوں کے باعث شدید بارشوں اور سیلاب جیسی قدرتی آفات بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنیں لیکن ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں آنے والے دنوں میں بھی پاکستان کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنیں گی اور رواں سال کے دوران بھی سیلاب خشک سالی اور انتہائی گرم موسم جیسی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔
موسمیات کے سرکاری ادارہ کے اعلیٰ ترین ماہر ڈاکٹر غلام رسول نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں خبردار کیا ہے کہ 2012ء میں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں رہیں گے جس کے باعث گرمیوں میں شدید گرمی، اچانک تیز بارش اور طویل عرصے تک خشک سالی جیسے غیر متوقع موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ابھی سے نمایاں ہو رہے ہیں اور ملک میں ایک لمبے عرصے سے جاری خشک سالی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
’’بہت لمبے عرصے تک بارش کا نہ ہونا وہ خوش سالی کا باعث بنتی ہیں تو اس طرح کی عجیب صورتحال کا سامنا 2012 میں بھی کرنا پڑے گا۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ رواں سال میں ملک کے مختلف علاقوں میں کم عرصے میں تیز بارشوں کا امکان ہے جو سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں اور طویل خشک سالی سے ملک کے بعص علاقوں میں خوراک کی کمی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر رسول نے اعتراف کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاکستان مکمل پر طور تیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے جبکہ موسمی تبدیلیوں کے باعث سیلاب اور خشک سالی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے نئے آبی ذخائر بھی تعمیر نہیں کئے جا سکیں ہیں۔
’’جو سب سے کمزور پوائنٹ ہے وہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا بہت کم ہونا ہے بہت سے ملکوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے بڑے بڑے ذخائر بنا لیے ہیں وہ ذخائر سیلاب سے بھی بچاتے ہیں اور ضرورت کے وقت جب بارش نہیں ہوتی ہے تو پانی بھی فراہم کرتے ہیں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہمسایہ ملک بھارت 6 ماہ تک کے لیے اور چین ایک سال تک کا پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔
ڈاکٹرغلام رسول نے کہا کہ سرد گرم موسم اور معمول کے مطابق بارش نہ ہونے سے فصلوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور ان حالات میں پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے خوراک میں خود کفالت اہم مسئلہ بن سکتا ہے۔
انھوں نے آفات سے نمٹنے والے قومی اداروں پر زود دیا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے قبل از وقت حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ ان آفات کے دوران جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو۔