واشنگٹن —
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو کئی تجزیہ کار ’ٹرانزیکشنل ریلیشن شپ‘ یا کاروباری رشتہ قرار دیتے ہیں۔ یہ موضوع پاکستان اور امریکہ دونوں میں ماہرین اور تجزیہ کاروں کی تحقیق اور تحریری کاوشوں کا مرکز بھی رہا ہے۔
کیا صرف پاکستان کو امریکی امداد کی ضرورت تھی؟ یا امریکہ نے پاکستان کو چھ دہائیوں سے کچھ زیادہ عرصے میں جتنی بھی امداد دی، اس سے امریکہ کا اپنا مفاد بھی وابستہ تھا؟ کیا امریکی امداد کے معاملے پر پاکستانی عوام سے پورا سچ نہیں بولا گیا؟ حال ہی میں امریکہ کے لئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی اسی بات کو اپنی نئی کتاب ’میگنیفسنٹ ڈیلوژنز‘Magnificent Delusions کا موضوع بنایا ہے۔
حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مبالغہ آمیز توقعات کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ان کے خیال میں امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کو امریکہ کے ساتھ زیادہ صداقت کے ساتھ گفتگو کرنی چاہئے۔
واشنگٹن کے ’ہڈسن انسٹی ٹیوٹ‘ میں ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیاسی قائدین کو اپنے عوام کے ساتھ بھی کھل کر بات کرنی چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کیوں ضروری ہیں اور ماضی میں ان تعلقات میں جو اتار چڑھاؤ آیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ قوموں کے تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، پاکستان کی قیادت نے سب سے پہلے امریکیوں سے آکر یہ وعدہ کیا کہ وہ روس کے خلاف امریکہ کے حلیف بننا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان سے بھارت کی مخالفت میں کبھی ساتھ دینے کا وعدہ نہیں کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمیشہ امریکہ کی ضرورت اس لئے پڑی کہ اسے امریکہ سے اسلحہ اور امداد چاہئے تھی۔
حسین حقانی نے کہا کہ نواز شریف کی امریکہ آمد پر جاری کی جانے والی ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد ترقیاتی کاموں کے لئے نہیں، بلکہ ان کے دورے کو کامیاب بنانے کے لئے تھی۔۔ حسین حقانی کے بقول، امداد دینے کا یہ طریقہ کار تبدیل ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو کئی بار بجٹ کی مد میں امداد فراہم کی ہے، جس کا ایک حصہ بد عنوانی کی نظر ہو جاتا ہے۔ اس لئے، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس امداد کو صرف ترقیاتی کاموں پر ہی خرچ کیا جائے۔
اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے پاکستانی تجزیہ کار فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ کسی ایک ملک کو ضرورت پڑنے پر دوسرا ملک یوں ہی امداد کرنے بھاگا نہیں چلا آتا۔ امریکہ کو بھی پاکستان کی ضرورت تھی کہ وہ ’کولڈ وار‘ کے زمانے میں کمیونزم کے خلاف ایک ایلائنس بناناچاہتا تھا۔ پاکستان کو ضرورت تھی کہ اسے اپنا دفاع مضبوط کرنا تھا۔افغانستان کی جنگ میں بھی امریکہ کا روس کے خلاف مفاد تھا کہ وہ پاکستان کی مدد کرے۔ پاکستان کو فوجی امداد مل رہی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ سوویت یونین اس کے سرحد تک آگیا ہے تو آگے بھی پہنچ جائے گا۔ اس پس منظر میں پاک امریکہ تعلقات میں دونوں ملکوں کا باہمی مفاد تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس وقت بھی پاکستان کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان افغانستان میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ طالبان کو سمجھا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کی نئی حکومت میں شامل ہوں، تاکہ وہاں امن اور استحکام آئے۔ اسی طرح پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے۔ اگر وہ پاکستان کے لئے اپنی منڈیاں کھولتا ہے یا یورپ میں پاکستان کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتا ہے، تو یہ دونوں کا باہمی مفاد ہے۔۔
واشنگٹن کے ایک اور تھنک ٹینک، ’کونسل آن فارن ریلیشنز‘ کے تجزیہ کار ڈینئیل مارکی نے پاکستان امریکہ تعلقات کے تناظر میں اپنی کتاب، No Exit From Pakistan
میں لکھا ہے کہ 1955ءمیں امریکی صدر آئزن ہاور کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈیلس نے کمیونزم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے سفارتی راستے ڈھونڈنے شروع کئے، جن سے امریکہ کے لئے اخراجات میں اضافہ کئے بغیر اور اپنی فوج ہر جگہ تعینات کئے بغیر کمیونزم کے خطرے سے نمٹنا ممکن ہو۔
جان فاسٹر ڈیلس کا خیال تھا کہ پاکستان، ایران، ترکی کا اتحاد بنا کر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر کو سوویت توسیع پسندی سےکم از کم اس وقت تک بچایا جا سکے گا جب تک امریکہ سوویت یونین کے خلاف کسی جوابی کارروائی کی تیاری مکمل نہیں کر لیتا۔
اگرچہ، امریکہ میں کئی تاریخ دان فاسٹر کی رائے سے متفق نہیں تھے، لیکن وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈیلس کی کوششوں سے ہی مئی 1954ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کا معاہدہ ہوا۔ لیکن، امریکہ کی طرف سے پیش کش کی جانے والی 30 ملین ڈالر کی امداد کو جنرل ایوب خان کی طرف سے ناکافی قرار دیا گیا۔۔جس پر آئزن ہاور انتظامیہ نے پاکستان کی ساڑھے پانچ ڈویژن فوج کو 500 ملین ڈالر کی خطیر رقم فوجی امداد کی شکل میں دینے کی منظوری دی۔ یہ رقم سنہ1956سے 1959کے دوران پاکستان کو دی گئی۔
کیا صرف پاکستان کو امریکی امداد کی ضرورت تھی؟ یا امریکہ نے پاکستان کو چھ دہائیوں سے کچھ زیادہ عرصے میں جتنی بھی امداد دی، اس سے امریکہ کا اپنا مفاد بھی وابستہ تھا؟ کیا امریکی امداد کے معاملے پر پاکستانی عوام سے پورا سچ نہیں بولا گیا؟ حال ہی میں امریکہ کے لئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی اسی بات کو اپنی نئی کتاب ’میگنیفسنٹ ڈیلوژنز‘Magnificent Delusions کا موضوع بنایا ہے۔
حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مبالغہ آمیز توقعات کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ان کے خیال میں امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کو امریکہ کے ساتھ زیادہ صداقت کے ساتھ گفتگو کرنی چاہئے۔
واشنگٹن کے ’ہڈسن انسٹی ٹیوٹ‘ میں ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیاسی قائدین کو اپنے عوام کے ساتھ بھی کھل کر بات کرنی چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کیوں ضروری ہیں اور ماضی میں ان تعلقات میں جو اتار چڑھاؤ آیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ قوموں کے تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، پاکستان کی قیادت نے سب سے پہلے امریکیوں سے آکر یہ وعدہ کیا کہ وہ روس کے خلاف امریکہ کے حلیف بننا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان سے بھارت کی مخالفت میں کبھی ساتھ دینے کا وعدہ نہیں کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمیشہ امریکہ کی ضرورت اس لئے پڑی کہ اسے امریکہ سے اسلحہ اور امداد چاہئے تھی۔
حسین حقانی نے کہا کہ نواز شریف کی امریکہ آمد پر جاری کی جانے والی ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد ترقیاتی کاموں کے لئے نہیں، بلکہ ان کے دورے کو کامیاب بنانے کے لئے تھی۔۔ حسین حقانی کے بقول، امداد دینے کا یہ طریقہ کار تبدیل ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو کئی بار بجٹ کی مد میں امداد فراہم کی ہے، جس کا ایک حصہ بد عنوانی کی نظر ہو جاتا ہے۔ اس لئے، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس امداد کو صرف ترقیاتی کاموں پر ہی خرچ کیا جائے۔
اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے پاکستانی تجزیہ کار فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ کسی ایک ملک کو ضرورت پڑنے پر دوسرا ملک یوں ہی امداد کرنے بھاگا نہیں چلا آتا۔ امریکہ کو بھی پاکستان کی ضرورت تھی کہ وہ ’کولڈ وار‘ کے زمانے میں کمیونزم کے خلاف ایک ایلائنس بناناچاہتا تھا۔ پاکستان کو ضرورت تھی کہ اسے اپنا دفاع مضبوط کرنا تھا۔افغانستان کی جنگ میں بھی امریکہ کا روس کے خلاف مفاد تھا کہ وہ پاکستان کی مدد کرے۔ پاکستان کو فوجی امداد مل رہی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ سوویت یونین اس کے سرحد تک آگیا ہے تو آگے بھی پہنچ جائے گا۔ اس پس منظر میں پاک امریکہ تعلقات میں دونوں ملکوں کا باہمی مفاد تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس وقت بھی پاکستان کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان افغانستان میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ طالبان کو سمجھا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کی نئی حکومت میں شامل ہوں، تاکہ وہاں امن اور استحکام آئے۔ اسی طرح پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے۔ اگر وہ پاکستان کے لئے اپنی منڈیاں کھولتا ہے یا یورپ میں پاکستان کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتا ہے، تو یہ دونوں کا باہمی مفاد ہے۔۔
واشنگٹن کے ایک اور تھنک ٹینک، ’کونسل آن فارن ریلیشنز‘ کے تجزیہ کار ڈینئیل مارکی نے پاکستان امریکہ تعلقات کے تناظر میں اپنی کتاب، No Exit From Pakistan
میں لکھا ہے کہ 1955ءمیں امریکی صدر آئزن ہاور کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈیلس نے کمیونزم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے سفارتی راستے ڈھونڈنے شروع کئے، جن سے امریکہ کے لئے اخراجات میں اضافہ کئے بغیر اور اپنی فوج ہر جگہ تعینات کئے بغیر کمیونزم کے خطرے سے نمٹنا ممکن ہو۔
جان فاسٹر ڈیلس کا خیال تھا کہ پاکستان، ایران، ترکی کا اتحاد بنا کر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر کو سوویت توسیع پسندی سےکم از کم اس وقت تک بچایا جا سکے گا جب تک امریکہ سوویت یونین کے خلاف کسی جوابی کارروائی کی تیاری مکمل نہیں کر لیتا۔
اگرچہ، امریکہ میں کئی تاریخ دان فاسٹر کی رائے سے متفق نہیں تھے، لیکن وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈیلس کی کوششوں سے ہی مئی 1954ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کا معاہدہ ہوا۔ لیکن، امریکہ کی طرف سے پیش کش کی جانے والی 30 ملین ڈالر کی امداد کو جنرل ایوب خان کی طرف سے ناکافی قرار دیا گیا۔۔جس پر آئزن ہاور انتظامیہ نے پاکستان کی ساڑھے پانچ ڈویژن فوج کو 500 ملین ڈالر کی خطیر رقم فوجی امداد کی شکل میں دینے کی منظوری دی۔ یہ رقم سنہ1956سے 1959کے دوران پاکستان کو دی گئی۔