امریکی اور پاکستانی حکام بدھ سے واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے درمیان جاری اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی تین روزہ مذاکرات میں اپنے اپنے وفود کی نمائندگی کریں گے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ مذاکرات میں امریکہ افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں پاکستان کی مدد کے لیے دو ارب ڈالر مالیت کے ایک پانچ سالہ منصوبے کی پیشکش کرے گا۔
اس پیشکش کو اُن کوششوں کا حصہ خیال کیا جا رہا ہے جس کا مقصد نیٹو اور امریکی افواج کی پاکستانی حدود میں حالیہ کارروائیوں کی وجہ سے طرفین میں پائے جانے والے تناؤ میں کمی لانا ہے۔ افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی میں پاکستان کی مبینہ پس و پیش پر بھی امریکہ ناخوش ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبز(Robert Gibbs) نے منگل کے روز بتایا تھا کہ پاکستان نے تعاون میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے اور رواں ہفتے ہونے والے اجلاسوں میں امریکی حکام کو اُن اقدامات کا خاکہ پیش کرنے کا موقع ملے گا جو پاکستان کو آئندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی صدر براک اوباما بھی بدھ کو وائٹ ہاؤس میں سلامتی سے متعلق اپنے مشیروں سے پاکستان اور افغانستان سے متعلق امور پر بات چیت کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ بند کمرے میں ہونے والے اجلاس میں پاک امریکہ تعلقات کے علاوہ افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ امن کوششوں کے لیے واشنگٹن کی حمایت بھی زیر غور آئے گی۔
پاکستان کو فراہم کی جانے والی امریکی امداد کو ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد بحالی کے عمل پر مرکوز کرنے پر بات چیت بھی ا سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے تازہ دور کا حصہ ہے۔ ان مذاکرات میں دونوں ملکوں کے دفاع سے متعلق حکام اور فوجی سربراہان بھی شرکت کر رہے ہیں۔
وزرائے خارجہ کی سطح پر پاک امریکہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا آغاز مارچ میں واشنگٹن میں ہوا تھا اور اس کا دوسرا دور جولائی میں ہوا جس میں شرکت کے لیے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن پاکستان آئی تھیں۔