رسائی کے لنکس

پاکستانی جیل خانے جرائم و شدت پسندی کے فروغ کا باعث


پاکستانی جیل خانے جرائم و شدت پسندی کے فروغ کا باعث
پاکستانی جیل خانے جرائم و شدت پسندی کے فروغ کا باعث

بین الاقوامی تنظیم نے رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت جیلوں میں قیدیوں سے روا رکھے جانے والے برے سلوک کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کرے۔ ’’سنگین جرائم میں ملوث مجرموں بشمول شدت پسندوں کو کم عمر قیدیوں اور ایسے ملزمان سے الگ رکھا جائے جو پہلی مرتبہ کسی جرم میں ملوث ہونے کے باعث جیل پہنچے۔‘‘

برسلز میں قائم غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل کرائسس گروپ (آئی سی جی) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کی جیلوں اور ان میں رکھے گئے قیدیوں کی حالت زار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے حکومت اور پارلیمان پر زور دیا ہے کہ وہ متعلقہ قوانین میں جلد از جلد اصلاحات کر کے صورت حال کو بہتر بنائے۔

رپورٹ میں ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کی موجودگی کو کئی سنگین نوعیت کے مسائل کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ناکافی عملہ اور بد انتظامی کے باعث قیدیوں میں شدت پسندانہ رجحانات اور مجرمانہ سوچ کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

’’فرسودہ قوانین اور نگرانی کے خراب طریقہ کار کے باعث قیدیوں کو مقدمے کا سامنا کیے بغیر طویل عرصے تک جیلوں میں رہنا پڑتا ہے جب کہ معمولی اور سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ملزمان کے درمیان بھی بہت کم فرق کیا جاتا ہے۔‘‘

بین الاقوامی تنظیم نے رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت جیلوں میں قیدیوں سے روا رکھے جانے والے برے سلوک کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کرے۔ ’’سنگین جرائم میں ملوث مجرموں بشمول شدت پسندوں کو کم عمر قیدیوں اور ایسے ملزمان سے الگ رکھا جائے جو پہلی مرتبہ کسی جرم میں ملوث ہونے کے باعث جیل پہنچے۔‘‘

حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور حکومت کے اصلاحاتی کمیشن کے چیئرمین عبدالغفور چوہدری نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ میں کی گئی زیادہ تر تنقید سے اتفاق کیا ہے۔

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جیلوں کی حالت زار اچھی نہیں ہے اور گنجائش سے زیادہ قیدی ان میں موجود ہیں۔ کئی نئے اضلاع تو بن گئے ہیں لیکن ان کی جیلیں نہیں بنیں، اس لیے وہ بنائی جا رہی ہیں تاکہ یہ (قیدیوں کا) رش کم ہو۔‘‘

آئی سی جی کی رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ رہائی پانے والے بعض قیدی باہر جا کر دوبارہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ تنظیم کے اس موقف کی عبدالغفور چوہدری نے بھی تائید کی۔

’’یہ صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں ہے کہ (جیلوں میں) معمولی نوعیت کے مقدمات میں جن ملزمان کو رکھا جاتا ہے وہ پکے مجرم بن کر آتے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رش کو کم کیا جائے، ہم صوبائی حکومتوں سے کہیں گے کہ جیل اصلاحات کا کمیشن بننا چاہیئے اور (قیدیوں) کو ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ جیلوں سے رہائی کے بعد دوبارہ جرائم میں ملوث ہونے کی بجائے اپنی روزی کا ذریعہ بنا سکیں۔‘‘

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے 33 ہزار زائد قیدی رکھے گئے ہیں۔

پاکستان میں جیل اصلاحات اور ان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم ’SHARP‘ کے اندازوں کے مطابق گنجائش سے زائد قیدیوں کی تعداد لگ بھگ 70 ہزار ہے۔

ادارے کے سربراہ لیاقت بنوری کہتے ہیں کہ جیلوں کے اندر کے حالات ’’کہیں زیادہ سنگین ہیں کیوں کہ غیر سرکاری تنظمیوں کے نمائندوں کو اصل صورت حال جاننے کے لیے قیدیوں تک دی جانے والی رسائی نا ہونے کے برابر ہے۔‘‘

XS
SM
MD
LG