رسائی کے لنکس

علاج کے لیے مشرف کو بیرون ملک جانے دیا جائے: عدالت سے درخواست


پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے دائر درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ سابق صدر کی صحت خراب ہے اور اُن کے معالج بیرون ملک ہیں اس لیے اُنھیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے اجازت دی جائے۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں یہ استدعا کی گئی کہ اُن کے موکل کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ سے نکالا جائے تاکہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک جا سکیں۔

’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں شامل افراد پر بیرون ملک جانے پر پابندی ہوتی ہے۔

پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے دائر درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ سابق صدر کی صحت خراب ہے اور اُن کے معالج بیرون ملک ہیں اس لیے اُنھیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ پرویز مشرف کو خرابی صحت کے باعث دو مرتبہ اسپتال میں منتقل کرنا پڑا۔ وہ ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں۔

سابق صدر کی ترجمان کی طرف سے بتایا گیا کہ سینے میں درد اور سانس لینے میں تکلیف کے باعث پرویز مشرف کو اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

بطور فوج کے سربراہ کے پرویز مشرف نے 1999ء میں اُس وقت کی سیاسی حکومت کو ہٹا کر ملک کا اقتدار سنھبالا تھا اور 2008ء میں اُنھیں سیاسی دباؤ کے باعث اقتدار چھوڑنا پڑا۔

2007ء میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات پر اُنھیں ’آئین شکنی‘ کے مقدمے کا سامنا ہے۔

اُدھر جمعہ کو ہی پاکستان کی عدالت عظمٰی نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کو شریک ملزمان قرار دینے کے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

سابق فوجی صدر کے خلاف ’آئین شکنی‘ کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں دیگر تین افراد کو بھی بطور شریک ملزم شامل کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

لیکن عدالت عظمٰی کی طرف سے جمعہ کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ آئینی شکنی کے مقدمے میں کسی شخص کو شامل کرنے کا اختیار عدالت نہیں بلکہ وفاق کے پاس ہے۔

سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر نے خصوصی عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سنائے گئے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔

اس اپیل کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کر رہا تھا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے یہ حکم بھی دیا گیا کہ خصوصی عدالت اس مقدمے میں کارروائی جلد از جلد مکمل کرے۔

یاد رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے طرف سے خصوصی عدالت میں استدعا کی گئی تھی کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز، اُن کی کابینہ کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر اُس وقت کے کور کمانڈروں کو بھی مقدمے میں شامل کیا جائے۔

اُن کے درخواست کو جزوی طور پر قبول کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس، سابق وزیراعظم اور سابق وزیر قانون کو ’آئین شکنی‘ کے مقدمے میں بطور شریک ملزمان شامل کیا گیا تھا۔

سابق صدر کے وکلاء کا یہ موقف رہا ہے کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ پرویز مشرف کا ذاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اُس وقت کی وفاقی کابینہ اور کور کمانڈروں کے علاوہ صوبائی گورنر بھی مشورے میں شامل تھے۔

تاہم اب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اب ’آئینی شکنی‘ کے مقدمے میں سابق صدر پرویز مشرف واحد نامزد ملزم رہ گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG