رسائی کے لنکس

2011ء میں پاک چین تعلقات پر ایک نظر


امریکی آپریشن کے دو ہفتوں بعد وزیر اعظم گیلانی نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔
امریکی آپریشن کے دو ہفتوں بعد وزیر اعظم گیلانی نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔

پاک چین تعلقات کے فروغ کے لیے کوشاں غیر سرکاری تنظیم پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین کہتے ہیں کہ قطع نظر اس بات کے کہ اسلام آباد میں حکمرانی کس کی ہے چین کی طرف سے اسلامی دنیا کے واحد جوہری ملک کی مسلسل حمایت نے بیجنگ کے ساتھ قریبی روابط کے بارے میں ملک میں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے کو جنم دیا ہے۔

سال 2011ء میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مسلسل کشیدہ رہے لیکن دوسری طرف پاکستانی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ہمسایہ ملک چین کے ساتھ اس کی قربت میں اضافہ ہوا۔

چین اُن چند ملکوں میں سے ایک تھا جس نے اُس وقت بھی پاکستان کی کھلے عام حمایت کا اظہار کیا جب دو مئی کو اس امر کا انکشاف ہوا کہ دنیا کا مطلوب ترین شخص اُسامہ بن لادن پاکستانی دارالحکومت سے محض 120 کلومیٹر دورفوجی چھاؤنی والے شہر ایبٹ آباد میں رہائش پذیر تھا۔

اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ
اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ

القاعدہ کے مفرور رہنما اُسامہ بن لادن کی ایک خفیہ امریکی کارروائی میں ہلاکت کے واقعہ کے دو ہفتوں بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔ پاکستانی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ یہ دورہ بہت پہلے سے طے شدہ تھا۔

لیکن اُس وقت عمومی تاثر یہی تھا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں پاکستان نے چین کے ساتھ فوجی و سفارتی مراسم مزید گہرے کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

پاکستان میں سابق سفارت کار اور مبصرین بیرونی دنیا میں پائے جانے والے ان خدشات کی نفی کرتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں چین اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک دوسرے کے متبادل نہیں ہوسکتے۔

سابق خارجہ سیکرٹری انعام الحق کہتے ہیں کہ سیاسی اور اقتصادی طور پرعدم تحفظ کا شکار پاکستان جیسے ممالک کے لیے دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا ناگزیرہوتا ہے۔

’’پاکستان کسی ایک طاقتور ملک کے ساتھ تعلقات کو کسی دوسری طاقت کے خلاف استعمال کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ ماننا بے معنی اور کم عقلی ہوگی کے ہم (پاکستان) ایسا کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی کوشش کم نظری پر مبنی اورمنفی نتائج کی حامل ہوگی۔‘‘

شنجیانگ میں ایک حملے کے بعد کا منظر
شنجیانگ میں ایک حملے کے بعد کا منظر

لیکن چین کے ساتھ تعلقات میں بھی پاکستان کو گزشتہ سال مشکلات کا سامنا رہا۔ جولائی کے اواخر میں مشتبہ وغرمسلمان علیحدگی پسندوں نے شورش زدہ شنجیانگ خطے میں دہشت گرد حملے کر کے کم ازکم 20 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم ایسٹ ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) کے باغیوں کی تربیت مبینہ طور پرپاکستان میں مقیم مسلمان شدت پسند گروہوں نے کی تھی۔

لیکن چین میں حکام نے ان الزامات کی تصدیق نہیں کی اور دونوں ملکوں نے دہشت گردی کا مل کر مقابلہ کرنے کا عزم کیا جس کا عملی مظاہرہ سال کے آخر میں جہلم کے قریب چینی اور پاکستانی افواج کی انسداد دہشت گردی کی مشترکہ مشقوں کے انعقاد سے کیا گیا۔

جنرل کیانی اور نائب چیف آف جنرل اسٹاف ہو شوزن
جنرل کیانی اور نائب چیف آف جنرل اسٹاف ہو شوزن

ان مشقوں کے اختتام پر پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چین کے نائب چیف آف جنرل اسٹاف ہو شوزن کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں ای ٹی آئی ایم کے خلاف چینی فوج کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرنے کا عزم دہرایا۔

’’ہم ای ٹی آئی ایم کے اُن عناصر کے خلاف، جو پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں، قریبی تعاون اور خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے آئے ہیں۔‘‘

جنرل کیانی نے کہا کہ چین کے لیے خطرہ بننے والی ایسٹ ترکستان اسلامی تحریک اور دیگر انتہا پسندوں کے خاتمے کے لیے پاکستان نے حتی الامکان کوششیں کی ہیں۔

چینی نائب چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ ’’انسداد دہشت گردی کی مشترکہ تربیت علاقائی دہشت گرد قوتوں کے خلاف جنگ میں مدد گار اورخطے میں امن واستحکام کی کوششوں کے لیے تعاون کو مزید گہرا کرے گی۔‘‘

چین اور پاکستان کے رہنماؤں کی طرف سے کھلے عام اظہار یکجہتی کے مقابلے میں گزشتہ سال اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات اس کے بالکل برعکس رہے کیونکہ امریکی اور پاکستانی رہنما زیادہ وقت تعاون کی بجائے اپنے بیانات میں باہمی اختلافات کو اجاگر کرتے رہے۔

مشاہد حسین
مشاہد حسین

دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے کوشاں غیر سرکاری تنظیم پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین کہتے ہیں کہ قطع نظر اس بات کے کہ اسلام آباد میں حکمرانی کس کی ہے چین کی طرف سے اسلامی دنیا کے واحد جوہری ملک کی مسلسل حمایت نے بیجنگ کے ساتھ قریبی روابط کے بارے میں ملک میں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے کو جنم دیا ہے۔

’’چین کا ایشو پاکستان میں اُن تین معاملات میں سے ایک ہے جس پر مکمل قومی اتفاق رائے ہے۔ جوہری پروگرام، بھارت کے ساتھ کشمیر کا تنازع اور چین کے ساتھ تعلقات، ان تینوں اُمور پرتمام سیاسی جماعتوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔‘‘

چین کے لیے اس جامع سیاسی حمایت کے باوجود ناقدین کا ماننا ہے کہ وسیع البنیاد مضبوط دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے پاکستان کو پہلے اپنے ہاں سنگین اقتصادی، سیاسی، ادارتی اور سلامتی کے مسائل کوحل کرنا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG