پاکستان میں تعلیم کے حصول کے لیے مزید تین ہزار افغان طالب علموں کو تعلیمی وظائف ’اسکالرشپ‘ دینے کے لیے بدھ کو اسلام آباد میں باضابطہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
اس تقریب میں پاکستان میں زیر تعلیم افغان طالب علموں اور یہاں کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افغان نوجوانوں سے خطاب میں پاکستانی صدر ممنون حسین نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ یہ نوجوان دونوں ملکوں کو قریب لانے میں کردار ادا کریں گے۔
’’میں توقع رکھتا ہوں کہ ان مواقع سے آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہو گا اور اپنے وطن واپس جا کر اپنے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور بھائی چارے میں مزید گرمجوشی اور اضافے کا ذریعہ بھی بنیں گے۔‘‘
اس موقع پر تقریب سے خطاب میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ تعلیم کے شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی یہ ایک اہم مثال ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اشتراک پر مبنی تعلقات جنوبی ایشیا اور خطے میں امن و استحکام کے لیے اہم ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ کئی طرح کے چینلجوں کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان عوامی رابطے اور تجارتی تعلقات جاری رہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے 2010 میں افغان طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں وظائف یعنی اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا تھا اور اُن کے بقول 2912 افغان طالب علم پاکستان میں تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔
جب کہ مزید تین ہزار افغان طالب علموں کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کیا گیا ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ اب تک 48 ہزار افغان پاکستانی تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک کے مختلف سرکاری و نجی شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
اُن کے بقول یہ افغان، پاکستان کے سفیر اور اثاثہ ہیں۔
پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی اس اُمید کا اظہار کیا کہ اس طرح کے رابطوں سے دوطرفہ تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔
’’مجھے اُمید ہے کہ افغان نوجوانوں نے اپنے قیام کے دوران پاکستانی طالب علموں اور دیگر افراد سے جو دوستی اور تعلقات بنائے ہوں گے، اُن سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
افغان طالب علم پاکستان میں میڈیکل، انجینیئرنگ اور دیگر شعبوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور اب بھی مختلف شعبوں میں زیر تعلیم ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کی روایات، ثقافت اور تاریخ ایک ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے دہشت گردی سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔