پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے تقریباً دو ہزار افغان طالب عملوں کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کے لیے وظائف دیئے گئے ہیں۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ’’اے پی پی‘‘ نے پاکستان کی وزات برائے ریاستی و سرحدی امور کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس پروگرام کے تحت افغان طلباء پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں طب، انجینئرنگ اور دیگر شعبو ں میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکومت نے ملک میں زیر تعلیم افغان طلباء کے ویزے کی مدت میں توسیع کر دی ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم کے سلسلے کو مکمل کر سکیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً سات ہزار افغان طالب علم اپنے خرچے پر تعلیم حاصل کر رہے جب کہ پاکستان سے اپنی تعلیم مکمل کرنے والے تقریباً تیس ہزار افغان شہری افغانستان واپس جا کر اپنے ملک کی تعمیر ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ایک سینئر تجزیہ کار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان طالب علموں کو پاکستان میں تعلیم کے حصول کے لیے سہولت فراہم کرنا نا صرف افغان نوجوانوں کے لیے مفید ہے بلکہ یہ اقدام افغان عوام میں پاکستان سے متعلق ایک مثبت سوچ کے فروغ کا باعث بنے گا۔
" افغان طلباء جو ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے پاکستان میں تعلیم کے لیے دروازے کھولے جائیں ۔ یہ لوگ یہاں پاکستان میں پانچ دس سال گزار کر جائیں گے تو وہ بڑے معاون اور (پاکستان کے لیے) اچھے سفیر ثابت ہوں گے جو واپس جا کر (افغان ) رائے عامہ میں پاکستان کے بارے میں مثبت اور صحت مند تبدیلی کا پیش خیمہ ہوں گے۔ اس لیے اس چیز کو (تعلیم کے سلسلے کو) نا روکا جائے اور وظائف میں مزید اضافہ کیا جائے۔۔۔ باہمی ثقافتی اور تعلیمی تعاون میں جتنا اضافہ ہو گا اتنا ہی زیادہ عوام سے عوام کے تعلقات بڑھیں گے اور کشیدگی اور غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو سکے گا اور بہتر تعلقات کی توقع کی جا سکتی ہے" ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ مہہنوں میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ افغانستان میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں۔
افغانستان یہ الزام عائد کرتا ہے ان حملوں میں وہ لوگ ملوث ہیں جو پاکستان میں مقیم ہیں، تاہم پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ باہمی تعلقات کو بہتر کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، جس کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر رابطوں کو موثر بنانا ضروری ہیں۔
ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے جہاں سفارتی رابطے ضروری ہیں وہیں مختلف عوامی شعبوں میں رابطے اور وفود کے تبادلے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔