نیا سال افغانستان کی تباہ حال سرزمین کے لیے اس اُمید کے ساتھ طلوع ہوا ہے کہ بالآخرامن مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں اورجنگ کی خونریزیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔
دس سال قبل امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کے حملے کے بعد، پہلی بار طالبان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ امریکی عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں جن میں خلیجی ریاست قطر میں سیاسی امور کا ایک آفس کھولنے پرابتدائی سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ طالبان نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے امریکہ سے اپنے اُن ساتھیوں کی رہائی کے لیے کہا ہے جو گوانتانامو بے ، کیوبا میں قید ہیں ۔
افغان صدر حامد کرزئی نے قطرمیں طالبان کا آفس کھولنے کے منصوبے اورطالبان کے ساتھ مذاکرات کی امریکی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے کیونکہ اُن کے خیال میں یہ پیش رفت افغانستان میں جنگ کو ختم کرنے اوربے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کو روک سکے گی۔
ان خبروں پر ہمسایہ ملک پاکستان کا ردعمل محتاط ہے۔ پاکستانی عہدے داروں نے یہ بتانے سے گریزکیا کہ اسلام آباد قیامِ امن کی اس کوشش میں شریک ہے یا نہیں۔ البتہ وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس موقف کو دہرایا ہے کہ ان کا ملک افغانستان کی قیادت میں کی جانے والی ایسی ہر کوشش کی حمایت کرے گا جس کا مقصد جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سیاسی مصالحت کی راہ ہموار کرتا ہو ۔
’’اس علاقے میں استحکام پاکستان کے بنیادی مفادات کا حصہ ہے۔ علاقے میں استحکام نہ ہونے سے، پاکستان ایک طویل عرصے سےمصائب برداشت کرتا رہا ہے۔ لہٰذا، افغانستان میں مصالحت اورقومی استحکام کی ہر کوشش کا براہِ راست پاکستان پر مثبت اثر پڑے گا اور ظاہر ہے کہ ہم ایسی ہر کوشش کی حمایت کریں گے ۔‘‘
کابل میں مقیم غیر جانبدار افغان تجزیہ کارعمر شریفی کہتے ہیں کہ طالبان کے آفس کھولنے کے اعلان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لینا قبل از وقت ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر کرزئی کی طرف سے اس اقدام کی کھلے عام حمایت کی وجوہات موجود ہیں۔
’’انھوں نے قطرمیں طالبان کا آفس کھولنے کےاعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ چاہیں گےکہ کوئی ایسا پتہ ہوجس پرطالبان سےرابطہ کیا جاسکے، اوراس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ چاہیں گے کہ طالبان سے رابطے کے لیے پاکستان کی خصوصی اجارہ داری کا تاثر ختم یا کمزور ہو جائے۔‘‘
پاکستانی فوج پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے افغان باغیوں کے امریکہ مخالف حقانی نیٹ ورک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور جس کے جنگجو شمالی وزیرستان میں اپنی پناہ گاہوں سےافغانستان میں اتحادی افواج پر حملوں میں ملوث ہیں۔
لیکن افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر، رستم شاہ مہمند جیسے مبصرین کا اصرار ہے کہ اسلام آباد کی شرکت کے بغیر، افغانستان میں امن کا جو بھی سمجھوتہ ہو گا، اس پر عمل در آمد مشکل ہو گا۔
’’کیونکہ پاکستان میں اب بھی بہت سے افغان پناہ گزیں موجود ہیں، اوربہت سے طالبان رہنما پاکستان میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کی پوزیشن بہت اہم ہوگی اورمجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر پاکستان کو اس عمل میں شامل کرنا پڑے گا۔‘‘
امریکی عہدے داروں نے طالبان کے ساتھ اپنے مبینہ رابطوں پربراہ راست تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن انھوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ اس سے تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں مدد ملےگی۔ تا ہم، اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ پاکستان کو تصفیے کےعمل سے باہررکھا جارہا ہے۔
" دونوں ملک، پاکستان اور امریکہ، پُر امن، کامیاب اورخوشحال افغانستان کے حصول کے عزم پر قائم ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہم نے مِل جل کر کام کرنے کا عزم کررکھا ہے۔ ہم نہ صرف آپس میں، بلکہ علاقے کے دوسرے شراکت داروں کے ساتھ تعاون کے عزم پر قائم ہیں تا کہ افغانستان کے بارے میں جو بھی سمجھوتہ ہو، وہ علاقے میں سب کے لیے اطمینان بخش ہو۔‘‘
مفرور کمانڈر گلبدین حکمت یار کے افغان باغی گروپ، حزب اسلامی، کے نمائندے بھی اس ہفتے صدر کرزئی، افغانستان میں نیٹوافواج کے کمانڈر، جنرل جان ایلن، اورکابل میں امریکی سفیر رائن کروکرسے ملنے کے لیے کابل گئے۔
حکمت یار کے پاکستان میں مقیم داماد، ڈاکڑغیرت باحیرنےکابل جانے والے تین رکنی وفد کی قیادت کی۔ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر وائس آف امریکہ سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر باحیر نے امریکیوں کے ساتھ اپنے مذاکرات کو بے لاگ، مفصل، ابہام سے پاک اور مفید قرار دیا۔
’’میرے خیال میں امریکیوں کا رویہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ عملی اورحقیقت پسندانہ تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی 2014 کے آخر تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں، اوراگریہ موقف حتمی ہے تو(افغانستان کے) بقیہ مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔‘‘
امریکہ نے 2014 کے آخرتک اپنی تمام لڑاکا فوجیں افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن بیشتر مبصرین کا خیال ہےکہ اس کے بعد بھی افغانستان کو مضبوط اورطویل المدتی بین الاقوامی حمایت درکارہوگی کیونکہ دوسری صورت میں طالبان سمیت مختلف افغان دھڑوں کے درمیان پائے جانے والےشدید اختلافات ملک کو ایک بار پھراُسی قسم کی خانہ جنگی سے دوچار کرسکتے ہیں جس کا تجربہ افغانستان کو1990 کی دہائی میں سویت افواج کے انخلا کے بعد ہوا تھا۔