افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے پناہ گزیں ایسے علاقوں سے آ رہے ہیں جہاں کرونا وائرس کے بارے میں کم آگہی ہے اور جہاں طبی معائنے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے باوجود پچھلے ایک مہینے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ افغانستان سے پاکستان کے اندر داخل ہو چکے ہیں۔
اس سے پہلے پاکستان میں افغانستان کے سفیر نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں میں کسی میں کرونا وائرس موجود نہیں۔
بلوچستان کی سرحد پر تعینات سینئر صحافی نور زمان اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغان باشندے سپن بالڈک کی سرحدی گزرگاہ کے علاوہ کئی غیر قانونی راستوں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور چونکہ پاکستان یا افغانستان کی جانب سرحد پر ان کے ٹیسٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں سوائے جسم کا درجہ حرارت چیک کرنے کے، اسلئے ان سے اس وائرس کے پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔
فاٹا کے سابق سکیورٹی چیف بریگیڈیئر محمود شاہ نے پشاور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جان چکا ہے کہ ایران کی سرحد سے ملک میں داخل ہونے والے افراد ہی کرونا وائرس لے کر آئے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو سرحد بند کر دینی چاہیئے اور سامان کی آمد و رفت کا کوئی متبادل تلاش کیا جانا چاہیے۔