واشنگٹن —
عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک میں فربہ بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ خطرے کا الارم بجا رہا ہے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق ان ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کام کرنا ہوگا ورنہ بچوں میں موٹاپا مستقبل میں انہیں بہت سی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔ افریقہ میں گذشتہ بیس برسوں میں موٹے بچوں کی تعداد دو گُنا ہو چکی ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق 2011ء میں دنیا بھر میں چار کروڑ تیس لاکھ بچے موٹاپے کا شکار تھے۔ یہ اعداد و شمار پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کے تھے۔
ماہرین Body Mass Index یا BMI کا سہارا لیتے ہوئے انسانی جسم کو قد، وزن اور عمر کے حساب سے پرکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کس کو وزن بڑھانے کی ضرورت ہے، کس کا وزن درست ہے، کس کا وزن زیادہ ہے اور کس کا وزن تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت کہتا ہے کہ وزن میں زیادتی آگے چل کر زندگی میں بڑے طبی مسائل جیسا کہ ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور فالج کا سبب بن سکتی ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت سے منسلک فرانسسکو برانکا کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وہاں پر لوگ موٹاپے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ان کے الفاظ، ’دنیا بھر میں کھانے کا نظام بدل رہا ہے۔ اب لوگ زیادہ تر ڈبوں میں بند خوراک کھاتے ہیں جن میں مختلف کیمیکلز ہوتے ہیں۔ ڈبوں میں بند خوراک میں چینی، چربی اور نمک کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ پھر ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی جسمانی سرگرمیاں بھی کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بھی وہ موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔‘
فرانسسکو برانکا کا کہنا تھا کہ موٹے بچوں کی بڑھتی شرح پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی درد ِ سر بن چکا ہے جہاں بظاہر اس کا حل اتنا آسان نہیں دکھائی دیتا۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق 2011ء میں دنیا بھر میں چار کروڑ تیس لاکھ بچے موٹاپے کا شکار تھے۔ یہ اعداد و شمار پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کے تھے۔
ماہرین Body Mass Index یا BMI کا سہارا لیتے ہوئے انسانی جسم کو قد، وزن اور عمر کے حساب سے پرکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کس کو وزن بڑھانے کی ضرورت ہے، کس کا وزن درست ہے، کس کا وزن زیادہ ہے اور کس کا وزن تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت کہتا ہے کہ وزن میں زیادتی آگے چل کر زندگی میں بڑے طبی مسائل جیسا کہ ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور فالج کا سبب بن سکتی ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت سے منسلک فرانسسکو برانکا کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وہاں پر لوگ موٹاپے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ان کے الفاظ، ’دنیا بھر میں کھانے کا نظام بدل رہا ہے۔ اب لوگ زیادہ تر ڈبوں میں بند خوراک کھاتے ہیں جن میں مختلف کیمیکلز ہوتے ہیں۔ ڈبوں میں بند خوراک میں چینی، چربی اور نمک کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ پھر ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی جسمانی سرگرمیاں بھی کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بھی وہ موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔‘
فرانسسکو برانکا کا کہنا تھا کہ موٹے بچوں کی بڑھتی شرح پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی درد ِ سر بن چکا ہے جہاں بظاہر اس کا حل اتنا آسان نہیں دکھائی دیتا۔