ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں بننے والے دو نئے جوہری بجلی گھر شہر اور ملک کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے جمعرات کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ دونوں بجلی گھر کراچی کی اس ساحلی پٹی پر تعمیر کیے جارہے ہیں جو 'فالٹ لائن' پر ہونے کے سبب زلزلوں اور سونامی کا نشانہ بن سکتی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ دونوں بجلی گھر 1970ء کی دہائی میں تعمیر کیے جانے والے ایک نسبتاً چھوٹے بجلی گھر 'کینپ' کی نزدیک تعمیر کیے جائیں گے جن سے 1100 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ دونوں بجلی گھر چین کے تعاون سے ا نتہائی جدید خطوط پر تعمیر کیے جارہے ہیں لیکن گنجان آباد شہر کے نزدیک ہونے کے سبب کئی حلقے ان کی تعمیر کے مخالف ہیں۔
اخبار نے مجوزہ جوہری بجلی گھروں کے مخالف پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے بیانات اور اعتراضات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں ایٹمی بجلی گھروں کو آبادی سے کئی کلومیٹر دور بنایا جاتا ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں زیادہ جانی نقصان نہ ہوا۔
اس کے برعکس مجوزہ بجلی گھروں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کراچی جیسا گنجان آباد شہر موجود ہے جس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق جس مقام پر یہ دونوں بجلی گھر تعمیر ہورہے ہیں وہ اس جگہ سے بھی زیادہ دور نہیں جہاں کچھ ہی عرصہ قبل شدت پسندوں نے پاکستان کی بحری فوج کا ایک جہاز اغوا کرلیا تھا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ کراچی کے پیچیدہ حالات اور ماضی میں یہاں کی کئی حساس تنصیبات پر دہشت گردوں کے حملوں نے بھی ان بجلی گھروں کی سکیورٹی سے متعلق خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق امریکہ کے کئی سفارتی اہلکاروں نے ان بجلی گھروں کی تعمیر پر تحفظات ظاہر کیے ہیں جب کہ امریکہ کو چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے جوہری تعاون پر بھی تشویش ہے۔
لیکن پاکستانی حکام جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کے مخالف حلقوں اور مغربی ملکوں کے تحفظات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
منصوبے کے سربراہ اظفر منہاج نے 'واشنگٹن پوسٹ' کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ بجلی گھروں کے لیے چین پاکستان کو 'اے سی پی – 1000' ساخت کے جدید ری ایکٹر دے گا جن سے تابکاری کے اخراج کا امکان انتہائی کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ری ایکٹر بغیر بجلی کے بھی 72 گھنٹوں تک خود کو ٹھنڈا رکھ سکتے ہیں جب کہ ان سے تابکاری کو اخراج کو روکنے کے لیے دہری حفاظتی دیوار بنائی گئی ہے۔