واشنگٹن —
تھائی لینڈ میں فوج نے نگران حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کے ایک روز بعد ملک کی سابق وزیرِاعظم اور کئی دیگر سیاست دانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
فوج کے ایک سینئر افسر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ سابق وزیرِاعظم ینگ لنک شیناوترا کے ساتھ ان کی بہن اور بہنوئی کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جو ان کی پارٹی کے اہم عہدیدار ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق فوجی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سابق وزیرِاعظم کو گرفتار کرنے کا اقدام ملکی صورتِ حال میں بہتری لانے اور معاملات کو منظم کرنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے تک حراست میں رکھا جائے گا۔
فوجی افسر نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ محترمہ شیناوترا کو گرفتاری کے بعد کہاں رکھا گیا ہے۔ لیکن مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق سابق وزیرِاعظم شمالی صوبے سارابوری کی ایک فوجی چھاؤنی میں قید ہیں۔
اس سے قبل جمعرات کو فوج کی جانب سے نگران حکومت برطرف کیے جانے اور اقتدار خود سنبھال لینے کے اعلان کے بعد فوجی اہلکاروں نے حکومتی سیاسی اتحاد اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔
تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایتھ چان اوچا نے اقتدار سنبھالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت ہے۔
فوجی افسران نے جمعے کو سابق وزیرِاعظم سمیت حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے 155 رہنماؤں کو مشاورت کے لیے طلب کیا تھا جس کے بعد محترمہ شیناوترا سمیت بیشتر رہنما جمعے کو بینکاک کے ایک فوجی دفتر میں حاضر ہوئے تھے۔
بعد ازاں فوج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں طلب کیے جانے والے تمام 155 رہنماؤں اور برطرف کی جانے والی نگران حکومت کے وزرا پر بغیر اجازت بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
جمعے کو فوج کے سربراہ جنرل پرایتھ نے مشاورت کےلیے سیکڑوں سول افسروں کو بھی طلب کیا اور ان سے حکومتی امور چلانے میں فوج کی مدد کرنے کی اپیل کی۔
افسروں سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرایتھ کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات سے قبل معاشی، سماجی اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صورتِ حال پرامن رہی تو فوج لوگوں کو اقتدار واپس لوٹادے گی۔
جنرل پرایتھ نے بینکاک میں تعینات غیر ملکی سفیروں اور ملٹری اتاچیوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کرکے فوج کے اقتدار سنبھالنے کے محرکات سے آگاہ کیا۔
تاہم امریکہ اور بیشتر مغربی ملکوں کے سفیروں نے بطورِ احتجاج فوجی جنرل کی جانب سے ملاقات کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
جمعرات کو اقتدار سنبھالنے کے اعلان کے بعد ملک میں ذرائع ابلاغ پر سخت سینسر شپ نافذ کردی گئی ہے جب کہ ملک بھر میں رات 10 بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو کا نفاذ کیا جارہا ہے۔
فوج نے دارالحکومت میں ہونے والے سابق حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے دھرنوں کو بھی منتشر کردیا ہے اور ملک میں پانچ یا زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کردی ہے۔
تھائی لینڈ میں فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی تاریخ پرانی ہے اور 1931 میں تھائی لینڈ میں آئینی بادشاہت کے قیام کے بعد سے اب تک فوج 12 بار کامیاب اور چھ بار ناکام بغاوت کرچکی ہے۔
فوج کے ایک سینئر افسر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ سابق وزیرِاعظم ینگ لنک شیناوترا کے ساتھ ان کی بہن اور بہنوئی کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جو ان کی پارٹی کے اہم عہدیدار ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق فوجی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سابق وزیرِاعظم کو گرفتار کرنے کا اقدام ملکی صورتِ حال میں بہتری لانے اور معاملات کو منظم کرنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے تک حراست میں رکھا جائے گا۔
فوجی افسر نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ محترمہ شیناوترا کو گرفتاری کے بعد کہاں رکھا گیا ہے۔ لیکن مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق سابق وزیرِاعظم شمالی صوبے سارابوری کی ایک فوجی چھاؤنی میں قید ہیں۔
اس سے قبل جمعرات کو فوج کی جانب سے نگران حکومت برطرف کیے جانے اور اقتدار خود سنبھال لینے کے اعلان کے بعد فوجی اہلکاروں نے حکومتی سیاسی اتحاد اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔
تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایتھ چان اوچا نے اقتدار سنبھالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت ہے۔
فوجی افسران نے جمعے کو سابق وزیرِاعظم سمیت حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے 155 رہنماؤں کو مشاورت کے لیے طلب کیا تھا جس کے بعد محترمہ شیناوترا سمیت بیشتر رہنما جمعے کو بینکاک کے ایک فوجی دفتر میں حاضر ہوئے تھے۔
بعد ازاں فوج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں طلب کیے جانے والے تمام 155 رہنماؤں اور برطرف کی جانے والی نگران حکومت کے وزرا پر بغیر اجازت بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
جمعے کو فوج کے سربراہ جنرل پرایتھ نے مشاورت کےلیے سیکڑوں سول افسروں کو بھی طلب کیا اور ان سے حکومتی امور چلانے میں فوج کی مدد کرنے کی اپیل کی۔
افسروں سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرایتھ کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات سے قبل معاشی، سماجی اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صورتِ حال پرامن رہی تو فوج لوگوں کو اقتدار واپس لوٹادے گی۔
جنرل پرایتھ نے بینکاک میں تعینات غیر ملکی سفیروں اور ملٹری اتاچیوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کرکے فوج کے اقتدار سنبھالنے کے محرکات سے آگاہ کیا۔
تاہم امریکہ اور بیشتر مغربی ملکوں کے سفیروں نے بطورِ احتجاج فوجی جنرل کی جانب سے ملاقات کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
جمعرات کو اقتدار سنبھالنے کے اعلان کے بعد ملک میں ذرائع ابلاغ پر سخت سینسر شپ نافذ کردی گئی ہے جب کہ ملک بھر میں رات 10 بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو کا نفاذ کیا جارہا ہے۔
فوج نے دارالحکومت میں ہونے والے سابق حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے دھرنوں کو بھی منتشر کردیا ہے اور ملک میں پانچ یا زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کردی ہے۔
تھائی لینڈ میں فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی تاریخ پرانی ہے اور 1931 میں تھائی لینڈ میں آئینی بادشاہت کے قیام کے بعد سے اب تک فوج 12 بار کامیاب اور چھ بار ناکام بغاوت کرچکی ہے۔