رسائی کے لنکس

سائفر کیس کی سماعت: 'عدالتی کارروائی کے دوران پانچ سے سات نامعلوم افراد موجود تھے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی از سرِ نو کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے اور ہفتے کو پہلی سماعت کے دوران میڈیا نمائندگان کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سماعت کی۔سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی حاضری لگائی گئی۔

سماعت کے آغاز پر شاہ محمود قریشی نے فاضل جج سے پوچھا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 یا 2023 کس قانون کے تحت کیا جا رہا ہے؟

شاہ محمود نے کہا کہ صدر علوی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ 2023 پر دستخط نہیں کیے تو عدالتی کارروائی کیسے ہو سکتی ہے? جس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ آپ پر صدر عارف علوی والے ترمیمی قانون کی کوئی شق لاگو نہیں ہوگی۔ آپ کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شق نو اور پانچ کے تحت ہو گا۔

سابق وزیرِ خارجہ نے مطالبہ کیا کہ صدرِ پاکستان کو عدالت طلب کیا جائے اور وہ عدالت میں حلف دے کر بتائیں کہ انہوں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترامیم کی منظور ی دی یا نہیں۔

سماعت کے دوران عمران خان نے میڈیا نمائندوں کی عدم موجودگی پر سوال کیا جب کہ پی ٹی آئی کے وکلا نے سماعت کے بائیکاٹ کی دھمکی دی جس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ ابھی میڈیا نمائندے بھی آ جائیں گے۔

پی ٹی آئی کے وکلا کے مطابق عدالتی کارروائی کے دوران پانچ سے سات نامعلوم افراد موجود تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ عام لوگ ہیں جو سماعت دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔

بعد ازاں تین صحافیوں کو اڈیالہ جیل کے اندر جامہ تلاشی کے بعد جانے کی اجازت دی گئی۔ لیکن جس وقت اے آر وائی نیوز سے وابستہ صحافی بابر ملک، سما ٹی وی کے یاسر حکیم اور دنیا نیوز کے رضوان قاضی اندرپہنچے تو پراسیکیوٹر وہاں سے جا چکے تھے۔

واضح رہے کہ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف لگ بھگ ڈیڑھ ماہ تک اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی تھی جسے پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن غیر قانونی قرار دیا تھا جس کے بعد خصوصی عدالت کی جانب سے اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی ہونے والی تمام کارروائی کالعدم ہو گئی تھی۔

بعدازاں تمام قانونی تقاضوں کے بعد ایک مرتبہ پھر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی از سرِ نو کارروائی کا آغاز ہوا ہے۔

عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھہ نے ہفتے کو ہونے والی سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کے اوپن ٹرائل کا حکم دیا تھا جس کا مطلب میڈیا اور عوام کو سماعت سننے کی اجازت ہونی چاہیے تھی لیکن اڈیالہ جیل میں آج کی کارروائی اوپن ٹرائل کی کسی تعریف پر پوری نہیں اترتی۔

انہوں نے بتایا کہ سماعت کے اختتام پر میڈیا کے تین نمائندوں کو اندر لے جایا گیا جنہوں نے دور سے عمران خان کو دیکھا لیکن عمران خان کو میڈیا نمائندوں سے بات چیت کی اجازت نہیں دی گئی۔

آج کی کارروائی بنیادی طور پر پہلی کارروائی تھی جس میں صرف حاضری لگائی گئی۔ دوسرے مرحلے میں فردِ جرم کے بعد باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔

عمران خان کے وکیل نے جیل ٹرائل کو چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جیل میں سماعت پر اعتماد نہیں ہے۔

سائفر کیس کیا ہے؟

سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔

اس الزام کی بنیاد پر 15 اگست 2023 کو عمران خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔

اس کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی اور وزارتِ قانون کی طرف سے عمران خان کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا۔

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 29 اگست کو پہلی مرتبہ سائفر کیس کی سماعت کی جس کے دوران عمران خان پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد 10 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے تھے۔

فورم

XS
SM
MD
LG