رسائی کے لنکس

سائفر کیس: خصوصی عدالت کا عمران خان کے خلاف جیل میں اوپن ٹرائل کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس کی سماعت اوپن کورٹ میں کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے منگل کو سائفر کیس کی سماعت کی تو عدالتی حکم کے باوجود عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

عدالت نے 23 نومبر کو ہونے والی سماعت پر دونوں ملزمان کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم منگل کو اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے عدالت کو بذریعہ خط بتایا کہ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے عمران خان کو پیش نہیں کیا جا سکتا جس پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا نے اعتراض کیا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے خط کی روشنی میں یکم دسمبر سے اڈیالہ جیل میں اوپن ٹرائل ہو گا اور جو بھی ٹرائل دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے اسے اجازت ہو گی۔

سپرنٹنڈنٹ جیل کے خط پر اعتراض کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ انڈر ٹرائل قیدی کو عدالت میں پیش کرنا جیل حکام کی ذمہ داری ہے، عدالت کے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

فریقین وکلا کے دلائل

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت کے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آخری وقت میں ایک خط آگیا ہے۔ کیا جیل سپرنٹنڈنٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ خطرہ زیادہ ہے اور پیش نہیں کیا جاسکتا۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈںٹ کےخط میں صرف عمران خان کا ذکر ہے شاہ محمود کا ذکر نہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا شاہ محمود قریشی کی جان کو بھی خطرات ہیں کہ انہیں بھی پیش نہیں کیا جاسکا؟

شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت ملزمان کی کسٹوڈین ہے اور انہیں عدالت میں پیش کرانا عدالت کی ذمہ داری ہے۔

علی بخاری نے کہا کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو عدالت اس پر حکم جاری کرے۔

جس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ عدالت نے ملزمان کی پیشی کا حکم دیا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ دیکھیں گے کہ سیکیورٹی خطرات ہیں یا نہیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کے پاس خط آیا کہ ملزم کی جان کو خطرات ہیں۔ اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپورٹنگ ڈاکومنٹس بھی خط کے ساتھ موجود ہیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ٹرائل چار ہفتے میں مکمل کرنے کا حکم دیا ہے اور عدالت نے اسے بھی دیکھنا ہے۔ جہاں بھی ٹرائل ہو گا پراسیکیوشن عدالت کی معاونت کرے گی۔

جج ابوالحسنات نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا آپ پبلک کو جیل میں جانے کی اجازت دے سکتے ہیں؟

جس پر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ہم اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دے سکتے عدالت نے اس معاملے کو دیکھنا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ خطرناک دہشت گردوں کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں سخت سیکیورٹی میں پیش کیا جاتا ہے۔ عدالت آج دو بجے تک عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے۔

پراسیکیوٹر نے بھی مؤقف اپنایا کہ عدالت سیکیورٹی تھریٹس کو دیکھتے ہوئے مناسب آرڈر پاس کردے۔

جیل میں سماعت کا فائدہ کس کو ہوگا؟
سینئر وکیل ایڈوکیٹ عثمان وڑائچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل میں محدود تعداد میں میڈیا اور عوام کو رسائی حاصل ہوگی۔ اس لیے عمران خان ٹرائل جیل میں ہونے کے بجائے عام عدالت میں ہوتا تو انہیں اس کا فائدہ بھی وہتا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کیس کی سماعت کے بارے میں جاننا عام لوگوں کا حق ہے کیوں کہ اب یہ کیس ان کیمرہ نہیں رہا اور اسے عام عدالت میں چلانے کا کہا گیا ہے۔

ایڈوکیٹ عثمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ فری ٹرائل عمران خان سمیت ہر شہری کا حق ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی وجہ سے ان کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اب جیل سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے سیکیورٹی سے متعلق رپورٹ آنے کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ٹرائل جیل کے اندر ہی ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ عملی طور پر جیل میں ہونے والے ٹرائل میں شریک ہونے کے لیے عوام کی بڑی تعداد کا پہنچنا اور اس ٹرائل کو دیکھنا بہت مشکل ہوگا۔

عثمان وڑائچ نے کہا کہ اس کیس میں اگر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے بجائے اوپر کی عدالتوں میں بعد میں کیسز فائل کیے جاتے تو انہیں فوری ریلیف مل سکتا تھا لیکن موجودہ صورتِ حال میں کھلی عدالت بھی ہوگئی ہے اور وہاں عام لوگوں کی موجودگی بھی بہت محدود ہوگی لہذا عمران خان کو ایسے ٹرائل کا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والی ایچ آر سی پی کی زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ شفاف ٹرائل کسی بھی شہری کا حق ہے اور ضروری ہے کہ جس بھی شخص پر کوئی الزام ہو اس کے خلاف ہونے والا ٹرائل بھی منصفانہ ہو۔ اس مقصد کے لیے عدالت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کہ عمران خان کا ٹرائل کھلی عدالت میں ہونے جارہا ہے۔ اس سے قبل صرف جیل حکام اور چند وکلا کی موجودگی میں عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت ہورہی تھی جو شفاف ٹرائل کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔

زہرہ یوسف کے مطابق اب اس کیس اور عمران خان سے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات سامنے ضرور آئیں گی جو عمران خان کے ساتھ ساتھ نظامِ انصاف کی شفافیت کے لیے بھی ضروری تھا۔

سائفر کیس کیا ہے؟

سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر اسے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔

اس الزام کی بنیاد پر 15 اگست 2023 کو عمران خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔

اس کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی اور وزارتِ قانون کی طرف سے عمران خان کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا۔

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 29 اگست کو پہلی مرتبہ سائفر کیس کی سماعت کی جس کے دوران عمران خان پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد دس گواہوں کے بیانات قلم بند کیے تھے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے عمران خان کے جیل ٹرائل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

وفاقی عدالت نے 21 نومبر کو عمران خان کے جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن غیر قانونی قرار دیا تھا جس کے بعد خصوصی عدالت کی جانب سے اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی ہونے والی تمام کارروائی کالعدم ہو گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG