جدید دور میں زندگی کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی مدد سے نمایاں تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اور آئے دن روزمرہ کے کاموں کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوشش پر کام جاری ہے۔
آن لائن کتابیں پڑھنے کا رواج اگرچہ زیادہ نیا نہیں مگر اب سکولوں میں بھی ٹیکسٹ بکس کی بجائے کمپیوٹر پر کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔آج کے دور میں آن لائن کتابوں کی وجہ سے جہاں بہت سے لوگوں کی پڑھنے کی عادات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں ۔ لوگوں کی خصوصا طالب علموں کی سیکھنے اور اساتذہ کے سکھانے کے طریقہ کار بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔
اس کی ایک مثال یہاں امریکی ریاست ورجینیا کے شہر فیر فیکس میں ملتی ہے یہاں کے ایک پبلک سکولوں میں ایک لاکھ 75 ہزار طالب علم پڑھتے ہیں۔گذشتہ برس 15 سکولوں میں ڈیجٹل کتابیں استعمال کی گیئں ۔ اس سال مڈل اور ہائی سکولوں میں سوشل سٹڈیز کے لیے کتابوں کی بجائے الیکٹرانک ٹیکسٹ بکس کا استعمال کیا گیا ۔
لیوک روزہ فالز چرچ ہائی سکول میں ہیسٹری کے ٹیچر ہیں ۔ وہ اپنے طالب علموں کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر پڑھاتے ہیں۔ وہ پڑھنے کے اس طریقہ کار کو بہت فائدہ مند قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک عام ٹیکسٹ بکس کی طرح ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ پرنٹ کے بجائے آن لائن ہے ۔
پیٹر نونان سکولوں کے اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں الیکٹرانک ٹیکسٹ بکس میں نئی معلومات فوری طور پر شامل کی جاسکتی ہیں۔ان کا کہنا ہے دنیا بہت تیزی سے اور مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اور آن لائن ملنے والے مواد میں حالات اور واقعات کے مطابق تبدیلی کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ ڈیجیٹل کتابیں پرنٹ ٹیکس بکس کے مقابلے میں نسبتا سستی ہیں۔
ایک طالب علم میلنی روتر کا کہنا ہے کہ اسے کتابوں کو ایک ساتھ اٹھانا نہیں پڑتا ۔ماریہ سٹیفنی کہتی ہیں کہ مجھے آن لائن کتابیں پڑھنا پسند نہیں کیونکہ بعض اوقات انٹرنیٹ صیح طور پر کام نہیں کرتا ۔
لیکن طالب علموں کو سکول کے علاوہ بھی انٹرنٹ تک رسائی کی ضرورت ہے۔ فیر فیکس کاونٹی کے بہت سے طالب علموں کو گھروں میں کمپیوٹر یا انٹر نیٹ دستیاب نہیں۔ سٹیفن کاسٹیلو کہتے ہیں کہ وہ آن لائن پڑھنے کے لیے یا لائبریری یا دوست کے گھر جاتے ہیں۔
کاونٹی کی بہت سی لائبریریوں میں انٹرنیٹ کی مفت سہولت دستیاب ہے اور ایسے بہت سے کمپیوٹر لیب بھی ہیں جنہیں حکومت چلاتی ہے۔
مڈل سکول کے طالب علم سلیمان حاکم اس سہولت سے بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر پر صرف ایک کمپیوٹر ہے جسے سب استعمال کرتے ہیں۔لہذا وہ کمپیوٹرلیب میں آکر اپنا ہوم ورک کرتے ہیں ۔
علاقے کے دیگر سکولوں میں بھی آن لائن ٹیکسٹ بکس کےاستعمال پر غور کیا جا رہا ہے ۔پرنس جارج کاونٹی ، میری لینڈ کے ایک سروے کے مطابق 60فی صد طالب علموں کو گھروں میں انٹر نیٹ تک رسائی ہے۔نصاب کے ڈائریکٹر گلیڈٰ یز وائٹ ہیڈ کہتے ہیں کہ ای بکس پروجیکٹ پر کام جا ری ہے۔
آن لائن کتابیں پڑھنے کا رواج اگرچہ زیادہ نیا نہیں مگر اب سکولوں میں بھی ٹیکسٹ بکس کی بجائے کمپیوٹر پر کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔آج کے دور میں آن لائن کتابوں کی وجہ سے جہاں بہت سے لوگوں کی پڑھنے کی عادات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں ۔ لوگوں کی خصوصا طالب علموں کی سیکھنے اور اساتذہ کے سکھانے کے طریقہ کار بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔
اس کی ایک مثال یہاں امریکی ریاست ورجینیا کے شہر فیر فیکس میں ملتی ہے یہاں کے ایک پبلک سکولوں میں ایک لاکھ 75 ہزار طالب علم پڑھتے ہیں۔گذشتہ برس 15 سکولوں میں ڈیجٹل کتابیں استعمال کی گیئں ۔ اس سال مڈل اور ہائی سکولوں میں سوشل سٹڈیز کے لیے کتابوں کی بجائے الیکٹرانک ٹیکسٹ بکس کا استعمال کیا گیا ۔
لیوک روزہ فالز چرچ ہائی سکول میں ہیسٹری کے ٹیچر ہیں ۔ وہ اپنے طالب علموں کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر پڑھاتے ہیں۔ وہ پڑھنے کے اس طریقہ کار کو بہت فائدہ مند قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک عام ٹیکسٹ بکس کی طرح ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ پرنٹ کے بجائے آن لائن ہے ۔
پیٹر نونان سکولوں کے اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں الیکٹرانک ٹیکسٹ بکس میں نئی معلومات فوری طور پر شامل کی جاسکتی ہیں۔ان کا کہنا ہے دنیا بہت تیزی سے اور مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اور آن لائن ملنے والے مواد میں حالات اور واقعات کے مطابق تبدیلی کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ ڈیجیٹل کتابیں پرنٹ ٹیکس بکس کے مقابلے میں نسبتا سستی ہیں۔
ایک طالب علم میلنی روتر کا کہنا ہے کہ اسے کتابوں کو ایک ساتھ اٹھانا نہیں پڑتا ۔ماریہ سٹیفنی کہتی ہیں کہ مجھے آن لائن کتابیں پڑھنا پسند نہیں کیونکہ بعض اوقات انٹرنیٹ صیح طور پر کام نہیں کرتا ۔
لیکن طالب علموں کو سکول کے علاوہ بھی انٹرنٹ تک رسائی کی ضرورت ہے۔ فیر فیکس کاونٹی کے بہت سے طالب علموں کو گھروں میں کمپیوٹر یا انٹر نیٹ دستیاب نہیں۔ سٹیفن کاسٹیلو کہتے ہیں کہ وہ آن لائن پڑھنے کے لیے یا لائبریری یا دوست کے گھر جاتے ہیں۔
کاونٹی کی بہت سی لائبریریوں میں انٹرنیٹ کی مفت سہولت دستیاب ہے اور ایسے بہت سے کمپیوٹر لیب بھی ہیں جنہیں حکومت چلاتی ہے۔
مڈل سکول کے طالب علم سلیمان حاکم اس سہولت سے بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر پر صرف ایک کمپیوٹر ہے جسے سب استعمال کرتے ہیں۔لہذا وہ کمپیوٹرلیب میں آکر اپنا ہوم ورک کرتے ہیں ۔
علاقے کے دیگر سکولوں میں بھی آن لائن ٹیکسٹ بکس کےاستعمال پر غور کیا جا رہا ہے ۔پرنس جارج کاونٹی ، میری لینڈ کے ایک سروے کے مطابق 60فی صد طالب علموں کو گھروں میں انٹر نیٹ تک رسائی ہے۔نصاب کے ڈائریکٹر گلیڈٰ یز وائٹ ہیڈ کہتے ہیں کہ ای بکس پروجیکٹ پر کام جا ری ہے۔