کراچی میں ایک ایسا قبرستان بھی ہے جہاں برطانوی فوجی افسروں کے علاوہ جرمن حملے کے دوران کراچی آکر پناہ لینے والے پولینڈ کے متعدد شہری بھی ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ان شہریوں اور فوجی افسروں کی فہرست بہت طویل ہے۔
سنہ 2005 میں پولینڈ کے قونصل خانے نے اپنے شہریوں کی باقاعدہ ایک یادگار بھی اس قبرستان میں تعمیر کرائی تھی، جس پر آج بھی جلی حروف میں اس واقعے کی تفصیل لکھی ہے۔
یہی نہیں۔ بلکہ، یہاں اٹھارویں اور انیسویں۔۔یعنی پوری دو صدیوں کے دوران بننے والی قبریں موجود ہیں۔ کچھ سخت قسم کے چونے کے پتھر سے بنی ہیں، جبکہ باقی سنگ مرمر کی ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں یہ قبرستان کون سا ہے ؟۔۔۔اور۔۔۔کہاں واقع ہے۔ ۔۔نیز یہ کہ اس قبرستان سے جڑی دلچسپ باتیں کون کون سی ہیں۔۔؟ اگر نہیں تو تفصیل ذیل میں ملاحظہ کیجئے:
گورا قبرستان
جی ہاں۔۔ مسیحی برادری کا یہ قبرستان جسے محض اس لئے ’گورا قبرستان‘ کہا جاتا ہے کہ یہاں مقامی شہریوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی بھی سینکڑوں قبریں موجود ہیں۔
’کراچی کرسچن سیمیٹری بورڈ‘ کے زیر انتظام اس قبرستان کے سپروائزر سرفراز وائس آف امریکہ سے کچھ یادوں کو شیئر کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’میں سنہ 80 سے اس قبرستان کی نگرانی کر رہا ہوں۔ پہلے گیٹ میں داخل ہوتے ہی پتھر پر بنا ایک بہت بڑا نقشہ ہوا کرتا تھا۔ مگر جیسے جیسے وقت نے کروٹیں بدلیں اس کے نقشے بدلتے چلے گئے۔‘
سرفراز مزید بتاتے ہیں، ’قبرستا ن کے عین درمیان میں ایک دیوار ہے جو قبرستان کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اس دیوار کے دوسری طرف کچھ مشہور اور بڑی مسلمان شخصیات کے بھی مزارات ہیں۔ دیوار بننے سے قبل دونوں ایک ہی تھے مگر اب الگ الگ ہیں یہاں تک کہ اس حصے کا راستہ بھی علیحدہ ہے۔‘
برطانوی فوجیوں کی آخری آرام گاہیں
گورا قبرستان میں ایک بڑی تعداد میں برطانوی فوجیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ یہ نوآبادیاتی دور کی قبریں ہیں۔ قبروں پر لگے کتبوں کے اعتبار سے دیکھیں تو سب سے قدیم قبر 1851ء کی ہے۔ لیکن، تاریخی حوالوں میں اس قبرستان کے قیام کی تاریخ 1845ء درج ہے۔
تاریخی لحاظ سے قبرستان کی عمر 170 سال ہوگئی ہے، لیکن عجب اتفاق ہے کہ اسے آثار قدیمہ نے ابھی تک تاریخی ورثہ قرار نہیں دیا ہے تو اس کا تذکرہ زیادہ واضح نہیں نہ ہی مناسب انداز میں قدیم قبروں کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبریں انتہائی توٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ بہت ساری قبروں کے تو آثار بھی اب بہت ہی مادوم ہوگئے ہیں۔
بارش کے دنوں میں یہاں پانی کئی کئی فٹ کھڑا ہو جاتا ہے اور اسی پانی کے سبب قبروں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ وی او اے کے نمائندے کو بھی دورے کے وقت جگہ جگہ کیچڑ نظرآئی، جبکہ سیم اور تھور بھی زمین سے اوپر تک نظر آئی جس کے سبب کافی پھسلن تھی۔
پولینڈ کے شہریوں کی یادگار
جنگ عظیم دوم کے دوران جبکہ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو سنہ 1942سے 1945ء کی درمیانی مدت میں پولینڈ کے تقریباً 30 ہزار شہریوں نے کراچی میں پناہ لی تھی۔ انہیں کنٹری کلب اور ملیر میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔ پناہ گزینی کے دوران 58پولینڈشہری انتقال کر گئے جو اسی قبرستان میں مدفن ہیں۔
سنہ 2005 میں پولینڈ کے قونصل خانے، نے اپنے 58 افراد کی آخری یادگار کو باقاعدہ سنگ مرمر کی مدد سے تعمیر کرایا اور اس پر واقعے سے متعلق تفصیلات کندہ کرائیں۔ اس کے آثار اب بھی قبرستان میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔یادگار کی بدولت جب جب قبرستان کی تاریخ دوہرائی جائے گی اس میں ان 58 افراد کا ذکر ضرور ہوگا۔