بھارت نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل کی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی قرارداد کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں وفد بھیجنے کی تجویز پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعرات کو نیوز بریفنگ میں او آئی سی سے اپیل کی کہ وہ بقول ان کے پاکستان جیسے ملک کی جانب سے متعصبانہ اور یک طرفہ قراردادوں کی مدد سے بھارت مخالف پروپیگنڈا کر کے اس پلیٹ فارم کو تباہ کرنے کی اجازت نہ دے۔
سعودی عرب میں بھارت کے سفیر اوصاف سعید نے پانچ جولائی کو جدہ میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل یوسف العثیمین سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے دوران یوسف العثیمین نے جموں و کشمیر میں او آئی سی کی قراردادوں کی روشنی میں ایک وفد بھیجنے کی تجویز پیش کی تھی۔
ارندم باگچی نے کہا کہ اس ملاقات کے دوران متعدد امور پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔ بھارت کے سفیر نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ مفاد پرستوں کی جانب سے بھارت کے بارے میں پیدا کی جانے والے غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ او آئی سی کو اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی بھارت کے داخلی معاملات میں بیانات دے کر یا متعصبانہ و یک طرفہ قراردادوں کے ذریعے بھارت مخالف پروپیگنڈا کرکے اس پلیٹ فارم کو تباہ نہ کرے۔
رپورٹس کے مطابق ملاقات کے دوران سیکریٹری جنرل نے بھارت میں مسلمانوں کے مسائل اٹھائے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں پر گفتگو کی اور یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے امکانات ہیں۔
رپورٹس کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر امکانات ہیں تو او آئی سی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان پر پاکستان نے ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے جب او آئی سی کے 57 رکن ممالک کے مؤقف سے باضابطہ طور پر بھارت کو آگاہ کیا گیا ہے۔
باگچی کے مطابق بھارت کے سفیر کی یہ ملاقات او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے کی جانے والی درخواست کے بعد ہوئی۔
او آئی سی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ سیکریٹری جنرل نے بھارت میں مسلمانوں کی صورتِ حال سے متعلق امور اور جموں و کشمیر کے تنازعے پر گفتگو کی اور اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی ان قراردادوں کا جائزہ لیا جن میں مسئلہ کشمیر پر کسی بھی یک طرفہ کارروائی کی مخالفت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ نومبر 2020 میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس میں پانچ اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو یک طرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا گیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ او آئی سی کا مؤقف نیا نہیں ہے۔ وہ پہلے بھی اس قسم کی تجاویز پیش کرتی رہی ہے۔
ان کے بقول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت مغربی ایشیا کے متعدد مالک اور او آئی سی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ارکان کے ساتھ بھارت کے بہتر ہوتے تعلقات کے تناظر میں پاکستان نے او آئی سی کے پلیٹ فارم میں کشمیر کا ایشو بارہا اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھارت اور او آئی سی کے رشتوں کو وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ او آئی سی کے اہم ممالک کے ساتھ بھارت کے دو طرفہ رشتے بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔
ان کے بقول جب بھارت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ کو منسوخ کیا تو متحدہ عرب امارات نے اس پر بھارت کے مؤقف کی حمایت کی اور سعودی عرب نے اس پر کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
انہوں نے دو سال قبل او آئی سی کے اجلاس میں اس وقت کی بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو خصوصی طور پر مدعو کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ البتہ او آئی سی نے اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔
بعض دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سشما سوراج کو مدعو کیے جانے کی مخالفت میں اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد او آئی سی نے پھر بھارت کو مدعو نہیں کیا۔
شیخ منظور احمد نے کہا کہ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ نے پانچ بار پاکستان کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس بلانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ لیکن ڈیڑھ سال ہو گیا انہوں نے اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی کوئی بیان دیا۔
ان کے مطابق گزشتہ 20 برس سے او آئی سی کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک وفد کشمیر بھیجنا چاہتے ہیں۔ لیکن نئی دہلی نے ہر بار اس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ جو تازہ بیان جاری کیا گیا ہے یا جو تازہ تجویز رکھی گئی ہے وہ سابقہ مؤقف سے الگ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان نے اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں ایک قرارداد لانے کی کوشش کی تو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ انہیں او آئی سی کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن او آئی سی کے ایک بھی رکن نے ان کی حمایت نہیں کی۔
شیخ منظور احمد کے خیال میں بھارت کے سفیر کی او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات مثبت سمت میں ہے۔ بھارت او آئی سی کے ساتھ اپنے رشتوں کو اور مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر بھارت کے سفیر او آئی سی کے حکام سے ملاقات نہیں کرتے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایک سفیر نے ملاقات کی ہے۔ لہٰذا اس ملاقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت میں چار بار مصالحت کرانے کی پیشکش کی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے پیشکش کی۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ کہا کہ یہ ہمارا دو طرفہ معاملہ ہے اس میں کسی تیسرے فریق کو مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ یہ ملاقات او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 47 ویں اجلاس کی قرارداد کے تناظر میں ہوئی ہے۔
بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ نومبر 2020 میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس نے پانچ اگست 2019 کے بھارت کے یک طرفہ اقدامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔ کونسل نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ بھارت اپنے غیر قانونی اقدامات واپس لے۔
ترجمان نے کہا کہ جموں وکشمیر کا تنازع عرصۂ دراز سے او آئی سی کے ایجنڈے میں رہا ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نئی دہلی کے یک طرفہ اقدامات اور کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی او آئی سی کی اولین ترجیح رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر اور وہاں کے عوام کے جائز حقوق کے لیے او آئی سی کی مسلسل حمایت کو سراہتا ہے۔