برطانیہ میں حکام نے مسلمان شدت پسندوں کی ایک سازش ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے جس کامقصد خود کش حملے کے ذریعے وزیرِاعظم تھریسا مے کو قتل کرنا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ سازش میں ملوث دو افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جنہیں بدھ کو لندن کی ایک عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
حکام کے مطابق دونوں افراد نے برطانوی وزیرِاعظم کی سرکاری رہائش گاہ '10 ڈاؤننگ اسٹریٹ' پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
وزیرِاعظم کے قتل کی سازش بے نقاب کرنے کا انکشاف برطانیہ کی سرکاری خفیہ ایجنسی 'ایم آئی 5' کے سربراہ اینڈریو پارکر نے منگل کو کابینہ کو دی جانے والی ایک بریفنگ کے دوران کیا۔
اس بریفنگ کے دوران خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے وزرا کو بتایا کہ ان کی ایجنسی نے رواں سال دہشت گردی کی نو واراداتوں کی کوشش ناکام بنائی ہے۔
'ایم آئی 5' کے سربراہ نے بریفنگ میں بتایا کہ دہشت گردی کی ناکام بنائی جانے والی وارداتوں میں وزیرِاعظم کے قتل کی سازش بھی شامل تھی۔
پولیس حکام کے مطابق حملے کی سازش کرنے والے دونوں مشتبہ ملزمان کو گزشتہ ہفتے لندن اور برمنگھم سے گرفتار کیا گیا۔
سازش کا مرکزی کردار نعیم الزکریا رحمن نامی 20 سالہ مسلمان نوجوان ہے جسے 28 نومبر کو لندن سے گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے وقت ملزم کے قبضے سے دو گھریلو ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائسز بھی برآمد کی گئیں۔
پولیس کے مطابق ملزم کا دوسرا ساتھی 21 سالہ محمد عاقب عمران ہے جو لندن کے چھاپے کے 90 منٹ بعد برمنگھم میں اس کی رہائش گاہ پر مارے جانے والے دوسرے چھاپے کے نتیجے میں گرفتار ہوا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ عاقب عمران اس سے قبل داعش میں شمولیت کے ارادے سے لیبیا جانے کے لیے جعلی پاسپورٹ حاصل کرنےکی کوشش بھی کرتا رہا ہے۔
حکام کے مطابق دونوں ملزمان وزیرِاعظم کی رہائش گاہ کے داخلی راستے پر نصب سکیورٹی گیٹ کو دھماکے سے اڑانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جس کے بعد بارود بھری جیکٹ پہنے ذکریا رحمن کو رہائش گاہ میں داخل ہونے کے بعد پہلے خنجر کے وار سے اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا کر تھریسا مے کو قتل کرنے کی کوشش کرنا تھی۔
برطانوی وزیرِاعظم کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اپنی بریفنگ کے دوران 'ایم آئی 5' کے سربراہ نے وزرا کو بتایا کہ شام اور عراق میں شکست کھانے کے باوجود داعش سے لاحق خطرہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس کا اثر و رسوخ نئے علاقوں میں بڑھ رہا ہے اور شدت پسند تنظیم اپنے متاثرین کو برطانیہ میں حملے کرنے پر اکسا رہی ہے۔
برطانیہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران کئی بڑے دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں جن پر برطانیہ کی سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔