امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ فلسطین کے علاقے غزہ کو باقی دنیا سے مستقل طور پر کاٹ کر نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
بدھ کو واشنگٹن میں جاری 'امریکہ – افریقہ سربراہی اجلاس' کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ غزہ کے لوگ بیرونی دنیا سے کٹ کر محض اپنے تئیں زندگی نہیں گزار سکتے اور ان کے لیے علاقے میں نہ ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی معاشی ترقی کا حصول ممکن ہے۔
صدر اوباما نے واضح کیا کہ انہیں غزہ کی حکمران جماعت 'حماس' کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں جسے امریکہ "دہشت گرد تنظیم" سمجھتا ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں بسنے والے عام فلسطینیوں کو سہولتوں کے حصول اور ترقی کے مواقع تک رسائی کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے بحران کا ایک ایسا پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا جو نہ صرف اسرائیل کی سلامتی کا ضامن ہو بلکہ اس کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں کو اپنی مشکلات کے حل کی امید بھی نظر آئے۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ قاہرہ میں اسرائیل اور فلسطینی وفود کے درمیان جاری مذاکرات کی حمایت کرتا ہے جن کا مقصد غزہ میں دیرپا جنگ بندی کا حصول ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ فریقین کے درمیان طے پانے والی 72 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی نہ صرف مقررہ مدت کے دوران برقرار رہے بلکہ اس میں مزید توسیع ہوجائے۔
انہوں نے حالیہ لڑائی کے دوران 'حماس' کی جانب سے غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیل پر راکٹ باری کو "انتہائی غیر ذمہ دارانہ قدم" قرار دیا۔
امریکی صدر نے اسرائیل کے "اپنے دفاع کے حق" کی حمایت کا اعادہ کیا لیکن ساتھ ہی غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے دوران عام شہریوں کی ہلاکت پر "پریشانی" بھی ظاہر کی۔
صدر اوباما نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور کئی عشروں سے جاری مسئلۂ فلسطین کے دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں۔
لیکن، صدر اوباما کے بقول، غزہ کے حالیہ بحران کے باعث فلسطین میں صدر عباس کی حیثیت کمزور ہوئی ہے۔