امریکہ کے صدر براک اوباما منگل کو محکمہ دفاع کے اعلٰی عہدیداروں سے ملاقات کر رہے ہیں جس میں افغانستان کے امور زیر بحث آئیں گے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہونے جا رہی ہے جب امریکی حکام افغان صدر حامد کرزئی پر مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کے لیے زور دے رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت رواں سال کے اواخر میں بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد بھی محدود تعداد میں امریکی فوجیوں کو افغانستان میں رہنے کی اجازت ہو گی۔
حالیہ مہینوں میں اوباما انتظامیہ صدر کرزئی سے معاہدے پر دستخط کا مطالبہ کرتی رہی ہے کیونکہ اس سے امریکی فوجی افغانستان میں رہتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں معاونت کے علاوہ مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت بھی فراہم کرتے رہیں گے۔
امریکی محکمہ دفاع کے حکام اس معاملے کو مارچ کے اوائل میں برسلز میں نیٹو وزرائے دفاع کے اجلاس سے قبل حل کرنے کے متمنی ہیں۔
صدر کرزئی تاحال اس دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے پس و پیش سے کام لیتے آرہے ہیں۔
افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈینفورڈ بھی ان دنوں واشنگٹن میں ہیں اور توقع ہے کہ اس ملاقات میں وہ بھی شریک ہوں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صدر اوباما ابھی تک اس معاملے پر ردعمل کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں اور تاحال یہ بھی واضح نہیں کہ اس کی کسی حتمی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ طے نہیں کیا جاسکا ہے۔
افغانستان کے معاملے پر یہ دوسری اہم ملاقات ہے۔ اس سے قبل وسط جنوری میں صدر اوباما نے قومی سکیورٹی کونسل سے بھی ملاقات کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس معاہدے پر دستخط ’’ہفتوں میں نہ کہ مہینوں میں‘‘ ہونا ضروری ہیں۔
’’یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کے بغیر 2014ء کے بعد امریکی فوجی افغانستان میں نہ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی رہیں گے۔‘‘
افغانستان میں سیاسی و قبائلی عمائدین پر مشتمل لویا جرگہ بھی اس معاہدے پر اتفاق کرتے ہوئے اس کی توثیق کے لیے صدر کرزئی سے کہہ چکا ہے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہونے جا رہی ہے جب امریکی حکام افغان صدر حامد کرزئی پر مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کے لیے زور دے رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت رواں سال کے اواخر میں بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد بھی محدود تعداد میں امریکی فوجیوں کو افغانستان میں رہنے کی اجازت ہو گی۔
حالیہ مہینوں میں اوباما انتظامیہ صدر کرزئی سے معاہدے پر دستخط کا مطالبہ کرتی رہی ہے کیونکہ اس سے امریکی فوجی افغانستان میں رہتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں معاونت کے علاوہ مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت بھی فراہم کرتے رہیں گے۔
امریکی محکمہ دفاع کے حکام اس معاملے کو مارچ کے اوائل میں برسلز میں نیٹو وزرائے دفاع کے اجلاس سے قبل حل کرنے کے متمنی ہیں۔
صدر کرزئی تاحال اس دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے پس و پیش سے کام لیتے آرہے ہیں۔
افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈینفورڈ بھی ان دنوں واشنگٹن میں ہیں اور توقع ہے کہ اس ملاقات میں وہ بھی شریک ہوں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صدر اوباما ابھی تک اس معاملے پر ردعمل کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں اور تاحال یہ بھی واضح نہیں کہ اس کی کسی حتمی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ طے نہیں کیا جاسکا ہے۔
افغانستان کے معاملے پر یہ دوسری اہم ملاقات ہے۔ اس سے قبل وسط جنوری میں صدر اوباما نے قومی سکیورٹی کونسل سے بھی ملاقات کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس معاہدے پر دستخط ’’ہفتوں میں نہ کہ مہینوں میں‘‘ ہونا ضروری ہیں۔
’’یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کے بغیر 2014ء کے بعد امریکی فوجی افغانستان میں نہ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی رہیں گے۔‘‘
افغانستان میں سیاسی و قبائلی عمائدین پر مشتمل لویا جرگہ بھی اس معاہدے پر اتفاق کرتے ہوئے اس کی توثیق کے لیے صدر کرزئی سے کہہ چکا ہے۔