روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر اتفاق رائے کے باوجود ماسکو نواز جنگجوؤں کی جانب سے یوکرین کے مشرقی علاقوں میں سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔
جنگجوؤں کے رہنما ڈینس پیشیلن نے کہا کہ اُن کے ساتھی جنیوا میں طے پانے والے اتفاق رائے پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہیں اور وہ صرف یوکرین کی حکومت کی جانب سے مستعفی ہونے پر ہی اپنی کارروائیاں بند کریں گے۔
یوکرین، روس، امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان جنیوا میں مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ تمام جنگجو سرکاری عمارتوں کا قبضہ چھوڑ کر ہتھیار پھینک دیں گے۔
دریں اثںاء امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس امید کا اظہار کیا کہ جمعرات کو جنیوا میں یوکرین میں کشیدگی کو کم کرنے کے منصوبے پر اتفاق سے یوکرین کے تمام شہریوں کے لیے امن اور سلامتی بحال ہو سکے گی۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر روس مشرقی یوکرین میں کشیدگی میں کمی کے اقدامات کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو امریکہ اور یورپ اس پر سخت اقدامات سے رد عمل ظاہر کریں گے، لیکن انھوں نے کسی بھی طرح فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار دیا۔
اوباما کا کہنا تھا کہ روس پر پہلے ہی پابندیاں عائد کیے جانے سے اس کی اقتصادیات پر اثر پڑا ہے اور مزید تعزیرات سے صورتحال اور خراب ہو سکتی ہے۔
"لیکن ہم عام روسیوں کو متاثر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہماری ترجیح مسٹر پوٹن کو اس بات کی پیروی پر آمادہ کرنے میں ہے جو جنیوا کانفرنس میں امید کی کرن کے طور پر ابھری ہے، لیکن ہم جب تک یہ دیکھ نہ لیں اس پر بھروسہ نہیں کریں گے۔"
صدر اوباما کے اس بیان سے قبل جنیوا میں روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف، امریکہ کی وزیرخارجہ جان کیری اور ان کی یورپی ہم منصب کیتھرین ایشٹن نے کشیدگی میں کمی، یوکرین کی فورسز اور روس کے حامی مسلح افراد کے درمیان خون خرابے کو روکنے کے لیے ایک منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔
سرگئی لاوروف نے کانفرنس کے بعد کہا تھا کہ بین الاقوامی جائزہ مشن پہلے ہی یوکرین میں موجود ہے اور وہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔
قبل ازیں روس کے صدر ولادیمر پوٹن کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ انھیں یوکرین میں روسی بولنے والوں کے تحفظ کے لیے فوج بھیجنے کا "حق" حاصل ہے لیکن ان کے بقول وہ امید کرتے ہیں "اس حق کو استعمال" نہ کرنا پڑے۔
ان کا یہ بیان مشرقی یوکرین میں روس کے حامی تین مظاہرین کی ہلاکت کے تناظر میں آیا تھا۔
مشرقی یوکرین میں گزشتہ ہفتے سے روس کے حامی مسلح افراد نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس پر حکومت نے ان کے خلاف محدود کارروائی بھ شروع کی تھی۔
جنگجوؤں کے رہنما ڈینس پیشیلن نے کہا کہ اُن کے ساتھی جنیوا میں طے پانے والے اتفاق رائے پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہیں اور وہ صرف یوکرین کی حکومت کی جانب سے مستعفی ہونے پر ہی اپنی کارروائیاں بند کریں گے۔
یوکرین، روس، امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان جنیوا میں مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ تمام جنگجو سرکاری عمارتوں کا قبضہ چھوڑ کر ہتھیار پھینک دیں گے۔
دریں اثںاء امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس امید کا اظہار کیا کہ جمعرات کو جنیوا میں یوکرین میں کشیدگی کو کم کرنے کے منصوبے پر اتفاق سے یوکرین کے تمام شہریوں کے لیے امن اور سلامتی بحال ہو سکے گی۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر روس مشرقی یوکرین میں کشیدگی میں کمی کے اقدامات کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو امریکہ اور یورپ اس پر سخت اقدامات سے رد عمل ظاہر کریں گے، لیکن انھوں نے کسی بھی طرح فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار دیا۔
اوباما کا کہنا تھا کہ روس پر پہلے ہی پابندیاں عائد کیے جانے سے اس کی اقتصادیات پر اثر پڑا ہے اور مزید تعزیرات سے صورتحال اور خراب ہو سکتی ہے۔
"لیکن ہم عام روسیوں کو متاثر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہماری ترجیح مسٹر پوٹن کو اس بات کی پیروی پر آمادہ کرنے میں ہے جو جنیوا کانفرنس میں امید کی کرن کے طور پر ابھری ہے، لیکن ہم جب تک یہ دیکھ نہ لیں اس پر بھروسہ نہیں کریں گے۔"
صدر اوباما کے اس بیان سے قبل جنیوا میں روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف، امریکہ کی وزیرخارجہ جان کیری اور ان کی یورپی ہم منصب کیتھرین ایشٹن نے کشیدگی میں کمی، یوکرین کی فورسز اور روس کے حامی مسلح افراد کے درمیان خون خرابے کو روکنے کے لیے ایک منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔
سرگئی لاوروف نے کانفرنس کے بعد کہا تھا کہ بین الاقوامی جائزہ مشن پہلے ہی یوکرین میں موجود ہے اور وہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔
قبل ازیں روس کے صدر ولادیمر پوٹن کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ انھیں یوکرین میں روسی بولنے والوں کے تحفظ کے لیے فوج بھیجنے کا "حق" حاصل ہے لیکن ان کے بقول وہ امید کرتے ہیں "اس حق کو استعمال" نہ کرنا پڑے۔
ان کا یہ بیان مشرقی یوکرین میں روس کے حامی تین مظاہرین کی ہلاکت کے تناظر میں آیا تھا۔
مشرقی یوکرین میں گزشتہ ہفتے سے روس کے حامی مسلح افراد نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس پر حکومت نے ان کے خلاف محدود کارروائی بھ شروع کی تھی۔