امریکی صدر براک اوباما اور قطر کے امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی، جس میں باہمی اہمیت کے حامل معاملات پر گفتگو ہوئی، جن میں امریکی قیادت والے اتحاد کی جانب سے داعش کے خلاف جاری کارروائی کے علاوہ عراق، شام، لیبیا، ایران، یمن پر بات چیت شامل ہے۔
مذاکرات کے بعد، صدر اوباما نےدونوں سربراہان کی ملاقات کو ’مشترکہ سوچ کی حامل اور قربت کی علامت‘ قرار دیا؛ اور بتایا کہ امن اور سلامتی کے حوالے سے گفتگو ’انتہائی کارآمد رہی‘۔
قطری امیر کے ہمراہ مشترکہ اخباری کانفرنس میں، صدر نے کہا کہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں دونوں ملک قریبی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں، اور یہ کہ شدت پسند مشرق وسطیٰ کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پُرتشدد انہتا پسندی، اور دہشت گردی کے خدشات کا قلع قمع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ داعش کے گروہ کو میسر آنے والی فنڈنگ کو مکمل طور پر بند کیے جانے کی کوششوں کو کامیاب بنایا جائے۔
شام کے بارے میں، صدر اوباما کا کہنا تھا کہ بشار الاسد ’حق حکمرانی کھو چکے ہیں، جِن کا اب کوئی کردار باقی نہیں رہا‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ ایران کے جرہری پروگرام کے تنازع پر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان بات چیت جاری ہے، اور یہ کہ اس بات کی تصدیق لازم ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے، جس ضمن میں، اُنھوں نے کہا کہ دوحہ کے خیالات بھی یکساں ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں امن اور سلامتی سے متعلق صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے، صدر نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں میں موجود مایوسی کے عنصر کا مداوا کیا جائے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، داعش جیسے شدت پسند گروہ پریشان حال اور مایوس نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ قطر بے تحاشہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اور ساتھ ہی وہ پُرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کی لڑائی میں پیش پیش ہے؛ جب کہ وہ، داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا ایک اہم رکن ہے۔
قطر کے امیر، شیخ تمیم نے کہا کہ فوجی، سلامتی اور معاشی شعبوں میں قطر اور امریکہ کے مابین ’سودمند اور قریبی تعلقات ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
اُنھوں نے فلسطین کے مسئلے کے پُرامن حل پر بھی زور دیا۔