اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ چاہے ہماری فوج اور معیشت کتنی ہی مضبوط ہو، امریکہ اکیلا دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ بقول اُن کے، ہم نے عراق سے یہ سبق سیکھا ہے کہ فوج اور اربوں ڈالر کسی بیرونی سرزمین پر امن قائم نہیں کر سکتے۔
اوباما نے مزید کہا ہے کہ جب تک ہم دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر بین الاقوامی قوانین کے تحت کام نہ کریں، ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
’جب تک ہم مل کر اس سوچ کو نہیں ہراتے جو عراق جیسے ملکوں میں مختلف فرقوں کو آپس میں لڑاتی ہے، ہماری فوج وہاں جتنا بھی استحکام لائے وہ کم مدت کے لیے ہوگا‘۔
شام کی صورتحال اور داعش کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ’ہم دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں بننے دیں گے جہاں سے بیٹھ کر وہ اپنی کاروائیاں کر سکیں۔ اور ہم نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک القائدہ کا پیچھا کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم دہشت گردوں سے نہیں ہاریں گے‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ ’میں یہ پہلے بھی کہ چکا ہوں اور دہراتا ہوں کہ داعش جیسی تنظیم کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اور امریکہ اس کے خلاف ایک بڑے اتحاد میں اپنی فوج استعمال کرنے پر کوئی معذرت نہیں کرے گا‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ شام کی موجودہ صورتِ حال کی ذمہ داری صدر اسد پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ انہوں نے پرامن مظاہرین پر تشدد کیا اور انہیں ہلاک کیا۔ جبکہ اس کے برعکس، روسی صدر ولدیمیر پیوٹن نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ داعش اور پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے موجودہ حکومت کو مضبوط کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔
پیوٹن نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شام کی حکومت اور فوج کے ساتھ تعاون سے انکار کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی، جو دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
بقول اُن کے، ’بالآخر، ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ کوئی اور نہیں بلکہ صدر اسد کی فوج اور کرد ملیشیا داعش اور دیگر دہشت گر تنظیموں کے خلاف شام میں لڑ رہی ہیں‘۔