صدر براک اوباما نے جمعرات کو فلوریڈا کے شہر اولینڈو میں سوگوار خاندانوں کے ارکان سے ملاقات کی، اُنھیں گلے لگا کر تعزیت کی، اور اتوار کے المناک شوٹنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے پاس متاثرین کے سوالات کے دلائل پر مبنی جواب نہیں آیا قتلِ عام کے یہ واقعات رُک کیوں نہیں جاتے۔
نائب صدر جو بائیڈن کے ہمراہ، اوباما نجی طور پر 49 ہلاک شدگان کے لواحقین اور زخمی ہونے والے 53 افراد سے ملے جو اتوار کے روز ’پَلس‘ نامی ’گے نائٹ کلب‘ میں امریکی تاریخ کی بدترین شوٹنگ کے واقعے میں متاثر ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ آپ کا صدمہ ’’بیان سے باہر ہے‘‘۔
اوباما نے کہا کہ مہلک حملے کے بعد اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ بے لوث یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے ہمارے اپنے خاندان ہی کے ارکان تھے، اور ہمارے دل بھی اتنے ہی غمزدہ اور پریشان ہیں جتنے کہ متاثرین کے ہیں۔
بقول اُن کے، ’’اگر ہم ضروری اقدام نہیں کرتے، تو اس قسم کا مزید قتلِ عام ہو سکتا ہے، چونکہ ہم اُن کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں‘‘۔
صدر نے کہا کہ بحیثیت ِقوم ہمیں اپنے اقدار کی پاسداری کرنی ہوگی، جب کہ ہمارے دشمنوں کی یہ کوشش ہے کہ ہم اپنی روایات کے منافی اقدام کریں۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ اورلینڈو کے المناک واقعے کا حملہ آور نفرت پر مبنی خیالات اور بگڑے ہوئے نظریات پر عمل پیرا تھا جو داعش اور دیگر شدت پسند نظریات سے متاثر تھا۔ تاہم، بظاہر اُس نے یہ دہشت گردی اپنے طور پر عمل کرتے ہوئے کی، جسے بڑے پیمانے پر تباہی لانے والا اسلحہ آسانی سے دستیاب ہوا۔
ادھر، صدر نے نائٹ کلب میں کئی ہیروز کی موجودگی کا ذکر کیا، جنھوں نے، بقول اُن کے، اپنی جان پر کھیل کر اپنے ساتھیوں کی جان بچائی۔ اس ضمن میں صدر نے کلب میں موجود بہادر افراد کے علاوہ پولیس اہل کاروں، نرسوں اور ڈاکٹروں کا خصوصی ذکر کیا۔
وائٹ ہاؤس ترجمان کے مطابق، صدر اوباما کی حمایت حملے کا شکار ہونے والی ’ایل جی بی ٹی‘ برادری۔۔۔ یعنی ہم جنس پرست، دونوں جنسوں کی طرف رجحان رکھنے والے اور جنس تبدیل کرنے والے افراد کے لیے ایک ’’وزنی توثیق‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔
صدر نے کہا کہ ہم ہم جنس پرست افراد کے ساتھ کھڑے ہیں، اور اُن کے حقوق کا دفاع کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ معاشرے میں جہاں خراب لوگ ہیں وہاں اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔
صدر نے کہا کہ اُن کی حکومت داعش اور القاعدہ کے خلاف اپنی کارروائی سختی سے جاری رکھے ہوئے ہے اور اُنھیں کمزور اور تباہ کرکے دم لے گی، جس کے لیے میدانِ جنگ اور نظریات کی لڑائی میں شکست دی جا رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سان برنارڈینو اور اورلینڈو کے واقعات میں ملوث حملہ آور بگڑے ہوئے ذہن کے مالک تھے۔ بقول اُن کے یہ تو ممکن نہیں کہ ایسے تمام واقعات کو روکا جاسکے، لیکن اِنھیں کم کرنے کی ضرور سعی کی جا سکتی ہے۔
اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان اس ضمن میں ضروری قانون سازی کرتے ہوئے، قتل عام میں استعمال ہونے والے اسلحے کی آسانی سے دستیابی کو روکنے کے لیے درکار اقدام کرنے میں مدد دیں گے۔
صدر اوباما نے کہا کہ وقت آگیا ہے کی اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے۔
اس سے قبل، نائب صدر کے ہمراہ، صدر اوباما نے متاثرہ خاندانوں اور حکام سے ملاقات کی اور ہلاک شدگان کی یادگار پر 49 پھولوں پر مشتمل دو گلدستے رکھے۔