امریکہ نے شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر صدر بشار الاسد سمیت چھ اہم عہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ،جس کے تحت ان کے امریکہ میں موجود اثاثے منجمد کردیئے گئے ہیں ۔ ماہرین ان پابندیوں کو شام میں حکومت مخالفین کے خلاف جاری سرکاری کریک ڈاون روکنے کے لئے دباو بڑھانے کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں ۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب صدر براک اوباما آج مشرق وسطی کے حوالے سے ایک اہم تقریر کرنے والے ہیں ، اور خطہ عرب کے کئی ملکوں میں نظام کی تبدیلی کے لئے تحریک چلائی جا رہی ہے۔ صدر اوباما کی تقریر سے ان ملکوں میں کئی ا توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں ۔
عرب دنیا میں جاری تبدیلی کی لہر کو چھ مہینے مکمل ہونے والے ہیں۔ تیونس اور مصر میں آنے والی تبدیلیاں پر تشدد تنازعوں میں گھری ہوئی ہیں۔ لیبیا پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے فضائی حملے جاری ہیں مگر صدر قذافی کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔
خطے میں کئے گئے عوامی آراء کے جائزے بتاتے ہیں کہ عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ وہاں صدر براک اوباما کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔ کئی لوگوں کے خیال میں مصر میں حکومت کی تبدیلی کے مطالبے کو امریکہ کی حمایت حاصل ہونے میں ضرورت سے زیادہ دیر لگی ۔اس سال فروری میں صدر اوباما نے بالآخر وہ بات کی جو قاہرہ کے تحریر سکوائر میں جمع لوگوں کے دل کی آواز تھی ۔
انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ جمہوریت اور عالمی آزادیوں کے لئے آواز اٹھاتا رہے گا ، جودنیا میں ہر جگہ رہنے والوں کا حق ہیں۔
لیکن مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں کئی لوگوں کا کہنا ہےکہ امریکہ نے خطے میں تبدیلی کے مطالبے کی حمایت میں توازن سے کام نہیں لیا۔
بحرین میں جہاں امریکی فوج کا پانچواں بحری بیڑا موجود ہے ، اور یمن جو دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا اتحادی ہے ، ان دونوں ملکوں میں تبدیلی کے مطالبے پر امریکہ نے خاموشی اختیار کئے رکھی ۔ مگر لیبیا کے صدر معمر قذافی کے خلاف مغربی ملکوں کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ دو ماہ سے جاری ہے اور امریکہ کی فوجی کارروائی بس یہیں تک محدود نہیں رہی۔
صدر اوباما نے دو مئی کو ایبٹ آباد مشن کی تکمیل کے بعد اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آج میں امریکی عوام اور دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ نے ایک کارروائی کی ہے جس میں اسامہ بن لادن مارا گیا ہے۔
عرب دنیا کی اکثریت القاعدہ کے راہنما کی حامی نہیں تھی لیکن پاکستان میں کی گئی اس یکطرفہ امریکی کارروائی نے لوگوں کے ذہنوں میں ان تمام گزشتہ کارروائیوں کی یاد تازہ کر دی ہے جو امریکہ نے مسلمان ملکوں میں کی ہیں ۔ انہی واقعات کا اثر زائل کرنے کے لئے صدر اوباما نے دو سال پہلے قاہرہ میں مسلم دنیا سے خطاب کیا تھا۔
لیکن مسلمان ملکوں میں اب بھی بہت سے لوگوں کے خیال ہے کہ تعلقات بہتر بنانے کے صدر اوباما کے وعدوں کو اب بھی عملی اقدامات کی ضرورت ہےاور مشرق وسطی کے حوالے سے صدر اوباما کااگلا خطاب بھی کوئی بڑا فرق پیدا نہیں کر سکے گا ۔ قاہرہ کی امیرکن یونیورسٹی کے پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں کہ صدر اوباما امریکہ کا تاثر دو قسم کے اقدامات سے بہتر بنا سکتے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ سب سے پہلے تو امریکی امداد، اور صرف مالی امداد ہی نہیں بلکہ جمہوری اداروں کے قیام اور ان کی ترتیب نو میں تکنیکی مدد اور تعلیمی وظائف کے ذریعے سے بھی ۔ ان ملکوں کو جمہوریت کے لئے تیار کرنے اور جمہوریت کی جانب منتقلی کےعمل میں بھی مدد کی ضرورت ہوگی۔
سعید صادق کے مطابق دوسرا اہم معاملہ یہ ہوگا کہ صدر اوباما فلسطین اسرائیل تنازعے کے حل کے لئے کوئی نیا لائحہ عمل پیش کریں ، جس سے ان کے خیال میں نہ صرف تنازعے کے حل میں مدد ملے گی بلکہ خطے میں مثبت تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ عرب حکمران اب تک مسئلہ فلسطین کو اپنی غیر جمہوری حکومتوں کی بقا کے لئے بہانے کے طور پر استعمال کرتے رہے ، اس لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم ان سے یہ وجہ ہی چھین لیں تاکہ وہ اپنے لوگوں کا سامنا کرنے کے لئے کوئی اور وجہ تلاش کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے اگر اپنے آج کے خطاب میں تنازعہ فلسطین اور اسرائیل کے حل کے لئے کسی ٹھوس منصوبے کا اعلان کیا تو شاید انہیں سننے والوں کا رد عمل بھی پہلے کے مقابلے میں گرمجوشی لیے ہوئے ہوگا۔