برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے نے اتوار کو کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے نئے تجارتی مواقع حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
برطانوی عوام کی طرف سے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں دیے گئے ووٹ کے بعد برطانیہ کے اس اتحاد سے انخلا کی صورت میں اسے مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔
تاہم مے نے اعادہ کیا کہ ریفرنڈم کے ذریعے انخلا کا فیصلہ برقرار ہے، "بریگزٹ کا مطلب دراصل بریگزٹ ہی ہے" اور "اس عمل سے نکلنے کی کوئی کوشش" نہیں کی جائے گی۔
جولائی میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اتوار کو انھوں نے چین کے شہر ہوانگڈو میں امریکہ کے صدر براک اوباما سے پہلی ملاقات کی۔ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے رہنما یہاں جی 20 کانفرنس میں شرکت کے لیے جمع ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کے اثرات پر زیادہ بات نہیں کی۔ لیکن صدر اوباما جو کہ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حامی رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ امریکہ یورپی یونین سے علیحدہ ہونے والے برطانیہ کے ساتھ الگ سے تجارتی معاہدہ کرے گا لیکن اس کے لیے اسے (برطانیہ کو) انتظار کرنا ہوگا۔
صدر کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس اثنا میں برطانیہ کی یہ ترجیح ہونی چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ یورپ کے تناظر میں بریگزٹ اس کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔
تاہم امریکی صدر نے مے کو یقین دلایا کہ ان کا ملک دوطرفہ تجارتی تعلقات پر "منفی اثرات" سے بچنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
برطانیہ میں بعض حلقوں کی طرف سے اب یہ آوازیں بھی آرہی ہیں کہ یورپی یونین میں رہنے کے لیے ایک اور ریفرنڈم کروایا جائے۔
لیکن ہوانگڈو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تھریسا مے کا کہنا تھا کہ "کوئی دوسرا ریفرنڈم نہیں ہوگا، وقت کو واپس موڑنے کی کوئی کوشش نہیں ہوگی، اس (معاملے) سے نکلنے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی، ہم یورپی یونین سے نکل جائیں گے۔"
مے کی صحافیوں سے گفتگو کے کچھ دیر بعد یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یورپی یونین برطانیہ کے اپنے 27 رکنی اتحادی ممالک سے تعلقات کے مستقل کے بارے میں اس وقت تک بات چیت نہیں کرسکتی جب کہ برطانوی حکومت باضاطہ طور پر آرٹیکل 50 کا اطلاق نہیں کرتی۔
اس آرٹیکل کے تحت برطانیہ کو اس اتحاد سے علیحدہ ہونے کا عمل شروع ہو جائے گا۔