امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے ایران اپنی حساس جوہری سرگرمیاں کم ازکم دس سال کے لیے منجمد کرے۔
خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ معاہدے تک پہنچنے کے امکانات اب بھی 50 فیصد سے کم ہیں۔
امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی ایران کے ساتھ مل کر ایک معاہدے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جس کے تحت تہران کو اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر آمادہ کر کے اس کے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیوں کو نرم کرنا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ ایران جوہری بم نہ بنائے اس بات کو صرف سفارتکاری سے ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے نا کہ اضافی پابندیاں عائد کر کے یا کسی فوجی حل کے ذریعے۔
" ہم یہ شروع ہی سے کہتے رہے ہیں کہ سخت تعزیرات کے ذریعے ہم ایران کو (مذاکرات کی) میز تک لا سکتے ہیں۔ اور میز پر لانے کے بعد ایران پر سنجیدہ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا جائے جس سے ہم یہ دیکھ سکیں کہ درحقیقیت وہاں (ایران میں) ہو کیا رہا ہے۔"
ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے سے متعلق مذاکرات کے بارے میں صدر اوباما کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب منگل کو اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو امریکی کانگریس کے سامنے ان امور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے جا رہے ہیں۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں میں ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے دینے پر اتفاق ہے لیکن اس مقصد کو کس طرح حاصل کیا جائے اس پر "قابل ذکر اختلاف" موجود ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایک سال کا عرصہ، جو ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہے، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو معاہدے کی کسی خلاف ورزی کا کھوج لگانے کا موقع دے گا جس سے اگر ضرورت پڑی تو فوجی اقدام کے ذریعے بھی ایران کو روکا جا سکتا ہے۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن امریکہ سمیت مغرب یہ باور کرتا ہے کہ وہ اس پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔