دنیا میں قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد امریکہ میں ہے۔ امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہا ہے کہ اُنھیں کانگریس کی جانب سے اِن اعداد و شمار کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مدد دینے پر خوشی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ دنیا کی آبادی کا پانچواں بڑا ملک ہے، جب کہ یہاں کی جیلوں میں دنیا کے قیدیوں کی 25 فی صد آبادی بند ہے۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ ہر سال، ہم قیدیوں پر 80 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔
اوباما نے کہا کہ گذشتہ چند عشروں کے دوران قیدخانوں میں تعداد بڑھنے کی ’اصل وجہ‘ یہ ہے کہ امریکہ کے جیلوں میں تشدد کے جرائم سے واسطہ نہ رکھنے والوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے، اور اُنھیں طویل عرصے جیل میں رکھا جاتا ہے۔
بقول اُن کے، بہت سے معاملات میں، ’ہمارا فوجداری انصاف کا نظام ایسا ہے جہاں اسکول کو تو فنڈ میسر نہیں آتے، لیکن جیلوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ ٹھونسے جاتے ہیں‘۔
صدر نے کہا کہ اُنھوں نے اِس رجحان کو بدلنے کے لیے اقدام کیا ہے، جس کے لیے اسکولوں میں زیادہ سرمایہ کاری کی جارہی ہے جہاں دھیان نہ ملنے والے بچوں کو بھی داخلا ملتا ہے، جب کہ ہلکی نشہ آور شے پر حد سے زیادہ سزا دینے کے عمل میں 100 سے ایک گنا درجے کی کمی کا اقدام کیا گیا ہے؛ جب کہ نشہ آور چیزوں کے استعمال سے متعلق پرانے قوانین، جنھیں مناسب قرار نہیں دیا جا رہا، اُن پر قید افراد کی سزائیں معاف کرنے کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ وہ اگلے چند ہفتوں کے دوران ملک بھر کا سفر کریں گے، جس دوران وہ ایسے امریکیوں کے معاملات کو اجاگر کریں گے جو فوجداری انصاف کے نظام کو درست کرنے کی جستجو کر رہے ہیں۔
اس سال کے اوائل میں، صدر اوباما نے ایک وفاقی جیل کا دوراہ کیا تھا، جو عہدے پر فائز کسی امریکی صدر کا جیل کا پہلا دورہ تھا، اور اُن کا مقصد جیل کے نظام میں اصلاح لانا ہے۔ اُنھوں نے امریکی ریاست اوکلاہوما کے ’الرینو‘ کے مرکزی جیل کا دورہ کیا جہاں وہ دونوں قانون کا نفاذ کرنے والے اور قیدیوں سے ملے۔