رسائی کے لنکس

بھارت میں مسیحی راہبہ پر جنسی حملہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں کیتھولک بشپس کانفرنس نے کہا کہ مسیحی برادری پر دیگر حملوں کے بعد یہ حملہ بھارت میں ان کے تحفظ کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔

نامعلوم افراد نے وسطی بھارت کے شہر رائے پور میں مسیحی مشنریوں کے ایک طبی مرکز میں نرس کے طور پر کام کرنے والی ایک 47 سالہ راہبہ پر جنسی حملہ کیا۔

طبی معائنے کے بعد ریاست چھتیس گڑھ میں واقع رائے پور کی پولیس نے کہا ہے کہ کیرالہ سے تعلق رکھنے والی راہبہ کے ساتھ ریپ نہیں کیا گیا، جبکہ پولیس اس کو ’’ریپ کی کوشش‘‘ قرار دے رہی ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ کچھ مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

یہ واقعہ ہفتہ کو پیش آیا تھا، مسیحی برادری کے بااثر افراد کا کہنا ہے کہ واقعاتی شواہد سے لگتا ہے کہ راہبہ کو ایک یا ایک سے زیادہ افراد نے کانونٹ کے کمرے میں زنا بالجبر کا نشانہ بنایا۔

چھتیس گڑھ کے صدر ارون پنالال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ راہبہ کو کل زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بات پر کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ ریاست بھر میں مسیحیوں کے خلاف جاری مہم کا حصہ لگتا ہے۔‘‘

بھارت میں کیتھولک بشپس کانفرنس نے کہا کہ مسیحی برادری پر دیگر حملوں کے بعد یہ حملہ بھارت میں ان کے تحفظ کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔

تین ماہ پہلے بھی ایک 71 سالہ راہبہ کو مغربی بنگال میں ایک کانونٹ میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ہزاروں افراد کے ساتھ اتوار کو اس واقعے کے خلاف مظاہرے میں شرکت کرنے والے پنالال نے کہا کہ مارچ میں ایک عمر رسیدہ راہبہ کے ریپ اور ہفتے کو ہونے والے حملے کا مقصد مسیحی برادری کی روح کی بے حرمتی کرنا ہے۔

’’مسیحی راہباؤں کو ریپ کا نشانہ بنا کر وہ برادری کو زیادہ سے زیادہ ذلت اور تکلیف سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بھیانک حملہ کس نے کیا مگر ہمیں شبہہ ہے کہ اس میں ہندوتوا کے کارکن ملوث ہو سکتے ہیں۔‘‘

دائیں بازو کے ہندو کارکن طویل عرصے سے مسیحی مشنریوں پر ہندوؤں کو زبردستی مسیحیت قبول کروانے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

ہندو انتہا پسندوں نے چرچ کارکنوں اور مشنریوں کو حملوں کا نشانہ بنایا اور املاک کو تباہ کیا جس میں کئی چرچ بھی شامل ہیں جنہیں نظر آتش کیا گیا یا دوسرے طریقوں سے تباہ کیا گیا۔

چھتیس گڑھ کے کچھ حصوں میں گزشتہ سال سے ہندو کارکنوں نے یک طرفہ طور پر تمام مسیحی سرگرمیاں ممنوع قرار دے رکھی ہیں۔

مسیحیوں پر نفرت انگیز حملوں کے بعد چند ماہ پہلے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ’’مذہبی اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے تحفظ اور فروغ‘‘ کے لیے اقدامات کا وعدہ کیا تھا۔

مگر کچھ مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں مسیحیوں کے خلاف حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور مودی کی ہندو قومیت پرست پارٹی بھارتیا جنتا پارٹی کے کچھ قانون ساز اور اراکین مسیحی اور مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔

نئی دہلی میں قائم یونائٹڈ کرسچن فورم فار ہیومن رائٹس کے ترجمان جان ڈیال نے مودی پر الزام لگایا ہے کہ انہیں ہندو عوام میں اپنی سیاسی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی جماعت کے سخت گیر مؤقف رکھنے والے ساتھیوں اور ان کے جارحانہ حامیوں کی شدید ضرورت ہے۔

ڈیال نے کہا کہ ’’اس لیے مودی صاحب نے اپنی جماعت کے رہنماؤں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے زہریلے نفرت انگیز بیانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس سے ایسی فضا نے جنم لیا ہے جس میں چرچوں کی بے حرمتی، راہباؤں کا ریپ اور عمومی عدم برداشت ممکن یا نا گزیر ہوگئی ہے۔‘‘

XS
SM
MD
LG