رسائی کے لنکس

بھارت: ہریانہ مہاپنچایت میں مبینہ ہیٹ اسپیچ اور ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل


بھارتی ریاست ہریانہ کی ایک ہندو تنظیم کی جانب سے مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے ذریعے ہندوؤں کو ہتھیار اُٹھانے پر زور دینے کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔

ہندو تنظیم ’سرَو ہندو سماج‘ کی جانب سے پَلول میں اتوار کو منعقد کی جانے والی ایک مہاپنچایت میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ دی گئی اور ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی ہے۔

پنچایت میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ نوح میں 31 جولائی کو نکلنے والی وشو ہندو پریشد کی یاترا کو دوبارہ 28 اگست کو نکالا جائے گا۔

وشوا ہندو پریشد کے ڈویژن سیکریٹری دیویندر سنگھ نے خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ 31 جولائی کو نوح میں جو یاترا نامکمل رہ گئی تھی اسے 28 اگست کو مکمل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ریاست ہریانہ کے ضلع نوح میں اس وقت فسادات شروع ہوئے تھے جب 31 جولائی کو ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی ایک یاترا گزر رہی تھی جس پر نامعلوم افراد نے پتھراؤ کیا تھا۔

اس دوران گوڑگاؤں کی ایک مسجد کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ حملہ آوروں نے مسجد کے نائب امام حافظ محمد سعد پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ مجموعی طور پر فساد کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کی رپورٹ کے مطابق پلول کے پونڈری گاؤں میں منعقد ہونے والی مہاپنچایت میں ایک تنظیم ’ہریانہ گو رکشک دل‘ سے وابستہ آچاریہ آزاد شاستری نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ جینے یا مرنے کا وقت ہے۔ انہوں نے ہندو نوجوانوں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں فوری طور پر میوات علاقے میں کم از کم ایک سو ہتھیاروں کے لائسنس لینے کو یقینی بنانا ہے اور یہ لائسنس بندوق کے لیے نہیں بلکہ رائفل کے لیے ہو کیوں کہ رائفل دور تک مار کرتی ہے۔

خیال رہے کہ میوات مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی ایک تنظیم ’تبلیغی جماعت‘ کا اثر ہے۔

شاستری کے بقول بھارت کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ مہاتما گاندھی کی وجہ سے مسلمان میوات علاقے میں رکے رہ گئے۔

انہوں نے ہندو نوجوانوں سے یہ بھی کہا کہ وہ ایف آئی آر درج ہونے سے نہ ڈریں۔ ان کے بقول "میرے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہے لیکن ہمیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔"

پلول کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) لوکیندر سنگھ نے کہا کہ مہاپنچایت کے انعقاد کی اجازت کئی شرطوں کے ساتھ دی گئی تھی جس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس میں نفرت انگیز تقریر نہیں ہو گی۔

ان کے مطابق منتظمین کو انتباہ کیا گیا تھا کہ ہیٹ اسپیچ کی صورت میں ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ ہتھیار، لاٹھی ڈنڈا اور آتش گیر مادہ نہ لانے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔ پنچایت میں صرف 500 افراد کی شرکت کی اجازت تھی۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال کی وجہ سے شدت پسند ہندو تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو نوح میں پنچایت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ ان دونوں تنظیموں کے کارکنوں نے مذکورہ پنچایت میں شرکت کی۔

ہندو مسلم فسادات: بھارتی ریاست ہریانہ میں کیا ہو رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00

میڈیا رپورٹس کے مطابق مہا پنچایت میں پولیس اہل کاروں کی موجودگی میں مبینہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ منتظمین کا دعویٰ ہے کہ مقررین کو ہیٹ اسپیچ کے خلاف انتباہ کیا گیا تھا لیکن کئی مقررین نے اس انتباہ کو نظرانداز کیا۔

نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق مہا پنچایت میں ایک مقرر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اگر ہماری طرف ایک انگلی اٹھاؤ گے تو ہم تمہارا ہاتھ کاٹ دیں گے۔ ایک مقرر نے رائفلوں کے لائسنس کا مطالبہ کیا۔

مہا پنچایت میں ایک 51 رکنی کمیٹی تشکیل کی گئی جس نے مطالبہ کیا کہ اس علاقے سے گائے کے ذبیحہ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو۔ کمیٹی کے مطابق گائے کی اسمگلنگ علاقے میں جھگڑے کی جڑ ہے۔ اس نے حکومت سے سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پیرا ملٹری فورس کے ہیڈ کوارٹر کے قیام اور نوح کی ضلعی حیثیت ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

کمیٹی نے نوح میں ہونے والے تشدد کی ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی‘ (این آئی اے) سے تحقیقات کرانے، تشدد میں ہلاک ہونے والوں کو ایک کروڑ اور زخمیوں کو پ50، 50 ہزار روپے معاوضہ دینے، علاقے میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو فوراً باہر نکالنے اور تشدد کے دوران ہونے والے نقصان کا معاوضہ ادا کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا ۔

واضح رہے کہ گوڑ گاؤں کی پولیس نے جمعے کو ایک بیان جاری کر کے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اشتعال انگیز نعرے لگانے، تقریر کرنے، بینر لے جانے اور ایسے کسی بھی عمل سے گریز کریں جس سے امن عامہ میں خلل پڑتا ہو۔

گوڑ گاؤں کے اے سی پی کرائم، ورون دہیا نے کہا کہ ہم نے یہ اپیل کسی خاص جلوس کے لیے نہیں کی ہے۔ ضلع میں امن ہے اور ہم نے یہ اپیل قیام امن کی غرض سے کی ہے۔

قبل ازیں پولیس کے اجازت نہ دینے کے باوجود گوڑگاؤں میں چھ اگست کو ہندو سماج مہاپنچایت کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔

ادھر بدھ کو حصار میں ’بھارتیہ کسان مزدور یونین‘ کی جانب سے ایک مہاپنچایت منعقد کی گئی جس میں کسانوں اور جاٹوں نے بڑی تعدادمیں حصہ لیا اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے قیام امن کی اپیل کی۔ پنچایت کے شرکا نے علاقے کے مسلمانوں کی حمایت کی اور کہا کہ کسی کو بھی انھیں زک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG