شمالی کوریا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا نیا طاقت ور بین البراعظمی میزائل امریکہ کے کسی بھی علاقے کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
شمالی کوریا نے بدھ کو بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کیا تھا جس کی اس کے پڑوسی ملکوں جنوبی کوریا اور جاپان کے علاوہ امریکہ نے بھی سخت مذمت کی ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے رواں سال ستمبر کے بعد یہ پہلا میزائل تجربہ ہے جو اس نے امریکہ کی جانب سے اسے ایک بار پھر دہشت گرد ریاستوں کی فہرست میں شامل کرنے کے چند روز بعد کیا ہے۔
شمالی کوریا کے حکام کے مطابق بدھ کو کیے جانے والے تجربے کے دوران 'ہوا سونگ -15' میزائل 4775 کلومیٹر کی بلندی تک گیا اور اس نے 53 منٹ میں 950 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔
اگر شمالی کوریا کی جانب سے بیان کی جانے والی میزائل کی بلندی درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میزائل خلا میں موجود بین الاقوامی خلائی مرکز (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) سے دس گنا بلندی تک گیا۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین سے لگ بھگ 400 کلومیٹر کی بلندی پر خلا میں موجود ہے۔
امریکی سائنس دانوں کی ایک تنظیم 'یونین آف کنسرڈ سائنٹسٹس' نے کہا ہے میزائل کی بلندی اور اس کی رفتار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی مار 13 ہزار کلومیٹر سے زائد ہوگی جس کا مطلب ہے کہ وہ بآسانی امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی تک پہنچ سکتا ہے۔
تاہم تنظیم کے مطابق یہ واضح نہیں کہ میزائل کتنا وزن ساتھ لے جاسکتا ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ آیا نیا میزائل شمالی کوریا کے دعووں کے مطابق کوئی بڑا جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔
میزائل تجربے کے بعد شمالی کوریا کے سرکاری ٹی وی پر نشر کیے جانے والےا یک بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل 'ہواسونگ – 15' کے کامیاب تجربے کے بعد کم جونگ ان فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ شمالی کوریا نے بالآخر اپنی جوہری طاقت کی تکمیل کا عظیم تاریخی مقصد پورا کرلیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہے جس کے اسٹریٹجک ہتھیار "امریکہ سے لاحق خطرے اور اس کی جوہری بلیک میلنگ پر مبنی سامراجی پالیسی" سے دفاع کے لیے ہیں۔
بیشتر ایٹمی ماہرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے اب تک یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ اس نے میزائل ٹیکنالوجی کی تمام مشکلات پر قابو پالیا ہے اور اس کے بین البراعظمی میزائل کامیابی سے نیوکلیئر وار ہیڈ لے جاسکتے ہیں۔
لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ شمالی کوریا جلد ہی اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ بھی کردے گا۔
کم جونگ ان کے دورِ اقتدار میں شمالی کوریا اب تک درجنوں میزائل تجربات کرچکا ہے جب کہ ستمبر میں اس نے اپنا چھٹا اور اب تک کا سب سے طاقت ور جوہری تجربہ بھی کیا تھا جو شمالی کوریا کے حکام کے مطابق ہائیڈروجن بم کا تھا۔
شمالی کوریا کی جانب سے بدھ کو فائر کیا جانے والا میزائل جاپان کی سمندری حدود میں گرا۔ امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ میزائل بین البراعظمی تھا لیکن امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' نے کہا ہے کہ میزائل سے امریکہ، اس کی سرزمین اور اس کے اتحادیوں کو کوئی خطرہ نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میزائل تجربے کے بعد اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ وہ "اس سے نمٹ لیں گے۔"
میزائل تجربے کے بعد امریکی صدر نے جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے اور جنوبی کوریا کے صدر مون جائے کو ٹیلی فوج کرکے صورتِ حال پر بات چیت کی ہے۔
وہائٹ ہاؤس کے مطابق تینوں رہنماؤں نے شمالی کوریا سے لاحق خطرے کا مل کر مقابلہ کرنےکے اپنے عزم کو دہرایا ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع جِم میٹس نے تصدیق کی ہے کہ بدھ کو فائر کیا جانے والا میزائل ماضی کے تمام تجربات میں فائر کیے جانے والے میزائلوں سے زیادہ بلندی پر گیا جس سے ان کے بقول ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا ایسے میزائلوں کی تیاری میں جتا ہوا ہے جس سے پوری دنیا کو دھمکایا جاسکے۔