رسائی کے لنکس

اسمرتی ایرانی کے دورۂ مدینہ پر تنازع؛ بھارتی علما کیا کہتے ہیں؟


بھارت کے اقلیتی اُمور کی وزیر اسمرتی ایرانی کے وفد کے ہمراہ مسلمانوں کے مقدس شہر مدینہ کے دورے کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ اسمرتی ایرانی کے دورے پر سوشل میڈیا میں ملا جلا ردِعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جہاں کچھ صارفین اُن کے سر نہ ڈھانپنے پر تنقید کر رہے ہیں تو بعض یہ کہہ رہے ہیں کہ جب حرم کی حدود میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے تو انہوں نے مدینہ کا دورہ کیسے کیا۔

بھارت کے اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے سات اور آٹھ جنوری کو سعودی عرب کا دورہ کیا۔ انھوں نے اس موقع پر سعودی عرب کے وزیرِ حج و عمرہ ڈاکٹر توفیق بن فیضان کے ساتھ تبادلۂ خیال کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے مطابق اگلے سال حج کے لیے بھارتی حجاج کا کوٹہ ایک لاکھ 75 ہزار مقرر کیا گیا ہے۔

اسمرتی ایرانی نے جدہ میں حج و عمرہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت بھی کی۔ اس موقع پر انھوں نے مکہ ریجن کے نائب گورنر پرنس سعود بن مشعل بن عبد العزیز ال سعود سے ملاقات کی اور حجاج کے لیے بہتر سہولتوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔

اس دورے میں اسمرتی ایرانی کے ساتھ وزیرِ مملکت برائے خارجہ وی مرلی دھرن بھی تھے۔

قبل ازیں انھوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ انھوں نے اسلام کے ایک مقدس اور تاریخی مقام مدینہ کا دورہ کیا۔ انھوں نے جبل احد اور اسلام کی پہلی مسجد قبا کا بھی دورہ کیا۔

'غیر مسلموں کے مدینہ جانے پر کوئی شرعی پابندی نہیں'

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسمرتی ایرانی پہلی غیر مسلم وزیر ہیں جنھوں نے ایک وفد کے ساتھ مدینہ کا دورہ کیا۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق اس دورے سے امسال حجاج کے لیے کیے جانے والے انتظامات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات میں گرم جوشی ہے۔ وہ بھارتی وفد کے مدینہ دورے کے لیے سعودی عرب کی وزارت حج و اوقاف کی شکر گزار ہے۔ وہیں کچھ لوگ اس دورے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف مکہ میں حرم کے حدود میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے مدینہ میں جا سکتے ہیں۔

علما کا خیال ہے کہ غیر مسلموں کے مدینہ جانے پر کوئی شرعی پابندی نہیں ہے۔ البتہ سعودی حکومت کے قیام کے بعد یہ روایت رہی ہے کہ کوئی غیر مسلم مدینہ کا دورہ نہیں کرتا تھا۔ تاہم تمام علما اس بات پر متفق ہیں کہ غیر مسلم مدینہ جا سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماہر اسلامیات اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ مدینہ میں غیر مسلم جاتے رہے ہیں۔ خود پیغمبرِ اسلام کے دور میں مسیحیوں کا وفد مسجدِ نبوی آیا تھا۔

اُن کے مطابق حضرت عمر کے دور میں ایک حکم نامے کے ذریعے غیر مسلموں کے مدینہ میں داخلے پر پابندی لگی تھی۔ اب موجودہ حکومت نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے غیر مسلموں کے لیے مدینہ کے دروازے کھولے ہیں۔ صرف مسجد الحرام میں غیر مسلم نہیں جا سکتے اور اسمرتی وہاں گئی بھی نہیں ہیں۔

'مکہ میں حرم کی حدود بہت وسیع ہے، لیکن مدینہ میں ایسا نہیں ہے'

مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کے سرپرست شیخ صلاح الدین مقبول احمد کہتے ہیں کہ مکہ میں حدود حرم کافی وسیع ہیں جب کہ مدینہ میں نہیں۔ قبا اور جبل احد حرم نبوی کی حدود سے باہر ہیں۔

ان کے بقول دورے کی وائرل ویڈیوز کے مطابق اسمرتی ایرانی مسجد نبوی کے اندر نہیں گئیں۔ وہ اس سے کافی دور رہی ہیں۔ تصاویر میں مسجد نبوی کے جو مینارے دکھائی دے رہے ہیں وہ کافی دور سے دکھائی دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اسمرتی ایرانی کے دورے کو دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ رشتوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

ان کے بقول جو لوگ ان کے دورے کی مخالفت کر رہے ہیں وہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی کھلے پن کی پالیسیوں کے مخالف ہیں۔

پروفیسر اختر الواسع بھی اس دورے کو باہمی رشتوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے تو اپنے ملک کا اعلیٰ سول اعزاز ہی وزیر اعظم نریندر مودی کو تفویض کیا ہے۔ ان کے بقول مسلمانوں کو ایسے تنازعات پر پڑنے کے بجائے عالم اسلام اور بھارت کے درمیان اتحاد کی کڑی بننا چاہیے۔

'اس معاملے پر مسالک میں اختلاف ہے'

اسلامک فقہ اکیڈمی آف انڈیا کے سیکریٹری مولانا عتیق احمد بستوی کا کہنا ہے کہ مدینہ میں غیر مسلموں کے جانے کے معاملے میں علما کی رائے الگ الگ ہے۔

اُن کے بقول حنفی مسلک کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم مدینہ جا سکتا ہے جب کہ حنبلی مسلک کے مطابق غیر مسلم نہیں جا سکتے۔

انھوں نے اسے محمد بن سلمان کی پالیسی اور مودی حکومت کی کوششوں کے تناطر میں دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دورہ نہ ہوا ہوتا تو اچھا تھا۔

'اقلیتی کمیونٹی کا بھلا ہو رہا ہے تو پھر کیا حرج ہے'

بریلوی مکتبِ فکر کے ایک بڑے عالم دین اور قادری مسجد جامعہ نگر کے امام مولانا فیضان احمد نعیمی بھی اسے دونوں ملکوں کے درمیان کا معاملہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اس دورے سے بھارت کے اقلیتوں کا کچھ بھلا ہوتا ہے تو کوئی بری بات نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام ملک اپنی اپنی معیشت کی بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے سعودی حکومت نے اسمرتی ایرانی کا مدینہ کا دورہ کرایا۔

ان کے بقول محمد بن سلمان جس پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے یہ اسی کا ایک حصہ ہے۔ تاہم انھوں نے ان کی اس پالیسی کی مخالفت کی۔

خیال رہے کہ بھارت اور سعودی عرب میں تاریخی اور دوستانہ رشتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت گزشتہ سال 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ سعودی عرب میں 20 لاکھ بھارتی شہری کام کرتے ہیں جو ہر سال بھاری زرِمبادلہ بھیجتے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے 2010 میں اور موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 2016 میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ محمد بن سلمان نے 2019 میں متعدد ایشیائی ملکوں کے دورے کے دوران بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے گزشتہ سال گروپ 20 کے سربراہ اجلاس کے موقع پر بھارت کا دورہ کیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG