دو سائنس دانوں نے، جن میں سے ایک کا تعلق امریکہ اور دوسرے کا جاپان سے ہے، طب کا نوبیل انعام جیت لیا ہے۔
سٹاک ہوم میں نوبیل انعام کی جیوری کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ 2018 کے لیے طب کے شعبے کا انعام مشترکہ طور پر دو سائنس دانوں جیمز ایلی سن اور تاسوکو ہونجو کو دیا جا رہا ہے۔
دونوں سائنس دانوں نے اپنے اپنے طور پر کینسر کے علاج کا ایک ایسا منفرد طریقہ دریافت کیا ہے جو مروجہ طریقہ کار سے مختلف ہے ۔ مروجہ علاج میں مریض کو کینسر کے خلیے جلانے والی ادویات دی جاتی ہیں جن کے اپنے بھی مضر اثرات ہوتے ہیں۔
دونوں سائنس دانوں نے روایتی علاج سے ہٹ کر یہ دریافت کیا ہے کہ اگر مریض کے اپنے مدافعتی نظام کی مدد کی جائے تو وہ کینسر کے مرض سے زیادہ بہتر انداز میں اور جلد نمٹ سکتا ہے۔
اس تحقیق کے ابتدائی نتائج نے ایسے پروٹینز کو ہدف بنانے کی راہ ہموار کی جنہیں مدافعتی سسٹم کے کچھ خلیے پیدا کرتے ہیں اور وہ پروٹین انسانی جسم کے قدرتی مدافعتی نظام میں رخنہ ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔
اسٹاک ہوم کی نوبیل کمیٹی نے کہا ہے کہ اس دریافت سے کینسر کے علاج میں انقلاب برپا ہو گا اور اس طریقہ کار میں بنیادی تبدیلی جائے گی جس طرح اب کینسر کا علاج کیا جاتا ہے۔
سن 1995 میں ایلی سن ان دو سائنس دانوں میں سے ایک تھا جنہوں نے یہ دریافت کیا کہ سی ٹی ایل اے فور خون کے مخصوص سفید خلیوں پر اثرانداز ہونے والا ایک مخصوص مالیکول ہے ۔ یہ سفید خلیے بیماری کے خلاف جسم میں قدرتی مدافعت پیدا کرتے ہیں۔
جیمز ایلی سن کی عمر 70 سال ہے۔ ان کی والدہ کا انتقال کینسر سے ہوا جب وہ 10 سال کے تھے۔ انہوں نے ایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جس سے انسانی جسم کا قدرتی مدافعتی نظام کینسر کے ٹیومرز پر حملہ کرنے اور انہیں روکنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اسی دوران جاپان کے سائنس دان ہونجو بھی کینسر کو روکنے پر کام کر رہے تھے ۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں مدافعتی خلیوں میں ایک خاص پروٹین پی ڈی ون دریافت کیا جو مدافعتی نظام میں ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن ایک مختلف طریقے سے۔
ایلی سن یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ایم ڈی اینڈرسن کینسر سینٹر میں کام کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں ایلی سن نے نوبیل انعام کے اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کبھی یہ خواب نہیں دیکھا تھا کہ ان کی تحقیق یہ شکل اختیار کرسکے گی۔ یہ ان کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے۔
جاپان کی سائنس دان ہونجو کی عمر 76 سال ہے۔ وہ یونیورسٹی کا کیوٹو کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی تحقیق جاری رکھیں گے تاکہ مدافعتي نظام کے طریقہ علاج سے کینسر کے زیادہ سے زیادہ مریضوں کی جان بچائی جا سکے۔
سائنس دان گزشتہ ایک صدی سے کینسر کے خلاف جنگ میں جسم کے قدرتی مدافعتي نظام سے کام لینے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ ایک صدی کے سفر کے بعد دو سائنس دان طبی لحاظ سے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔