بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں رمضان کے آخری جمعے یعنی ’جمعتہ الوداع‘ پر کسی بڑی مذہبی تقریب کا انعقاد نہیں ہوا اور نہ ہی روایتی بازار سجے۔
سرینگر کی تاریخی جامع مسجد کے منتظیمن نے کرونا وائرس کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر پہلے ہی جمعتہ الوداع اور شبِ قدر کے مواقع پر خطبہ، باجماعت نماز اور اجتماعی شبِ بیداری جیسے تمام مذہبی اجتماعات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ڈل جھیل کے مغربی کنارے پر واقع درگاہ حضرت بل اور مسجد اور جموں و کشمیر وقف بورڈ کے زیرِ انتظام دوسری مساجد اور خانقاہوں میں بھی رمضان کے آخری جمعے پر کوئی بڑی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔
وقف بورڈ نے بھی شبِ قدر پر تقریبات کا اہتمام نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امام بارگاہوں میں بھی اس طرح کے اجتماعات نہیں ہوئے۔ یومِ علی پر روایتی مجالس کی تقریبات منعقد نہیں کی گئیں۔
تاہم جمعے کو وادیٴ کشمیر، جموں اور کرگل کے کئی علاقوں میں لوگوں نے اپنے محلے کی مساجد میں کرونا ایس او پیز اور ہدایات پر عمل کرتے ہوئے باجماعت نمازِ جمعہ ادا کی۔
لاک ڈاؤن پیر تک جاری رہے گا
بھارت کی حکومت نے کشمیر کے سب ہی 20 اضلاع میں نافذ لاک ڈاؤن میں توسیع کرکے اسے پیر 10 مئی تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعے کو سہہ پہر تک جموں و کشمیر کے مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج کرونا کے مزید 34 مریض ہلاک ہوئے۔ کشمیر میں وبا سے اب تک لگ بھگ ڈہائی ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ رواں ہفتے وبا سے متاثرہ 270 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مثبت کیسز میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں یہ تعداد اب دو لاکھ دو ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ لداخ میں، جس کی کل آبادی پونے تین لاکھ ہے، وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔
لیہہ میں حکام نے بتایا کہ لداخ میں اب تک 151 افراد کرونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ اب تک 15 ہزار مُثبت کیسز سامنے آئے ہیں۔
آکسیجن اور ادویات کی بدستور کمی
وادیٴ کشمیر اور جموں میں آکسیجن اور وائرس کا توڑ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی بدستور کمی ہے۔ ویکسین کے اسٹاک ختم ہونے کی وجہ سے وادی میں 80 اور جموں میں 20 مراکز پر لوگوں کو کرونا ویکسین کی خوراکیں دینے کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔
سرکاری اسپتالوں اور دوسرے طبی مراکز میں انتشار اور مریضوں کو درپیش مشکلات کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل سامنے آ رہی ہیں۔ البتہ حکام اس طرح کی شکایات کی تردید کرتے ہیں۔
محکمۂ صحت نے ان اسپتالوں کے ڈاکٹروں، طبی عملے کے دیگر افراد اور منتظمین کے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ کئی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان اسپتالوں اور طبی مراکز میں داخل ہونے سے بھی روک دیا گیا۔
صحافی خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں؟
صحافیوں کو صحت کے مراکز میں داخل ہونے سے روکنے کے حوالے سے محکمۂ صحت کے حکام نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کے صحافیوں کے ساتھ انفرادی سطح پر بات کرنے اور معلومات شیئر کرنے سے لوگوں میں ذہنی الجھاؤ پیدا ہو رہا ہے اور ان کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ چند صحافیوں کی غلط یا مبالغہ آرائی پر مبنی رپورٹنگ کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس بھی پھیل گیا ہے۔
تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ محکمۂ صحت دراصل ان خامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے جن کی وجہ سے کرونا کے مریض پریشانی کا شکار ہیں۔