رسائی کے لنکس

بلوچستان: وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی میں جمع


بلوچستان اسمبلی (فائل فوٹو)
بلوچستان اسمبلی (فائل فوٹو)

بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی جماعتوں بشمول پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے جس کو 65 رکنی اسمبلی میں 53 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں حزبِ اقتدار اور اختلاف کے 14 ارکان نے وزیرِ اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادی ہے۔

بلوچستان اسمبلی کے سیکرٹری شمس الدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ انہیں 14 ارکانِ اسمبلی کے دستخطوں سے وزیرِ اعلیٰ پر عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہوا ہے جو قواعد کے مطابق اب تمام ارکانِ اسمبلی کو بھیج دیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد اسپیکر دیگر متعلقہ حکام سے مشورے کے بعد صوبائی اسمبلی کا اجلاس سات روز کے بعد کسی بھی روز طلب کرسکتے ہیں۔

شمس الدین نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے اسمبلی کے کل ارکان کے 20 فیصد (13 ارکان) کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک وزیرِ اعلیٰ کی حمایت کرنے والے دو ارکانِ اسمبلی سابق اسپیکر عبدالقدوس بزنجو اور آغا رضا علی نے جمع کرائی ہے جس پر دیگر 12 ارکان کے بھی دستخط ہیں۔

عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ڈپٹی اسپیکر اور مسلم لیگ (ق) کے رکنِ اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ تحریک کی حمایت کے لیے انہوں نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ارکان سے بھی رابطے کیے ہیں۔

اُن کے بقول صوبائی حکومت کی کارکردگی سے حکمران جماعت کے بعض ارکان بھی مطمئن نہیں جو ان کی تحریک کی حمایت کریں گے۔

عبدالقدوس بزنجو نے دعویٰ کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر حکومت میں شامل ق لیگ اور نیشنل پارٹی کے ارکان کے علاوہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان اور ایک آزاد رکن نے بھی دستخط کیے ہیں۔

بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 21، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 11، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، مجلسِ وحدتِ مسلمین کا ایک اور ایک آزاد رکن حزبِ اقتدار کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔

اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی نشستوں پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ایک رکن بیٹھتا ہے جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دو ارکانِ اسمبلی آزاد نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار جعفر وال کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی طرف سے حکومت پر عدم اعتماد کی کی جانے والی کوشش کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک منظور کرنے کے لیے کم ازکم بھی 33 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے جو فی الحال مسلم لیگ (ق) اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مل کر بھی پوری نہیں کر سکتیں۔

بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی جماعتوں بشمول پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے جس کو 65 رکنی اسمبلی میں 53 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

XS
SM
MD
LG