نائجیریا کے حکام نے اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کواٹرز پر کار بم کے دھماکے کا الزام ممان نور نا می دہشت گرد پر عائد کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس شخص نے القاعدہ سے منسلک الشباب کے عسکریت پسندوں سے صومالیہ میں تربیت حاصل کی تھی۔ سیکورٹی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ نور اس اسلامی فرقے میں شامل ہے جسے بوکو حرام کہا جاتا ہے۔ اس نام کا ڈھیلا ڈھالاترجمہ ہے،مغربی تعلیم حاصل کرنا گناہ ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر پر بمباری اس گروپ کی اب تک کی کارروائیوں میں سب سے اہم ہے، اور شمالی نائجیریا میں ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کے بعد کی گئی ہے ۔
بوکو حرام کی تنظیم نائجیریا کے آئین کو یا اس سال کے شروع میں ہونے والے صدر گڈلک جوناتھن کے انتخاب کو تسلیم نہیں کرتی۔ صدر جوناتھن نے بمباری کے اس واقعے کے بعد اپنی قومی سیکورٹی کی ٹیم میں تبدیلیاں کی ہیں اور کہا ہے کہ نگرانی کے کام میں سویلین آبادی کی شرکت سے دہشت گردوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کو شکست دینے میں مددملے گی۔
لیکن بوکو حرام کو توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اس گروپ کی تہہ تک پہنچاجائے جس کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ ابو بکرعمر قاری یونیورسٹی آف ابوجامیں عمرانیات پر لکچر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بوکو حرام کی اصلیت کو سمجھنا مشکل ہے۔’’یہ ایک سربستہ راز ہے۔ جتنا زیادہ آپ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی کم آپ کو کچھ پتہ چلتا ہے ۔ اس کے وجود کے بارے میں بھی جتنے منہ اتنی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ کون لوگ اس کی پشت پناہی کرتے ہیں،یہ تنظیم کیا کرتی ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں،کوئی بات واضح نہیں ہے ۔‘‘
بوکو حرام کی بمباری کی مہم اس وقت شروع ہوئی جب دو برس پہلے اس تنظیم کا لیڈر پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گیا۔ قاری کہتے ہیں کہ حکومت نے اس مسئلے کو فوجی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی اور یوں اس پر بڑی حد تک مذہبی معاملے کی طرح توجہ دینے کا موقع گنوا دیا۔’’حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ بوکو حرام پر سماجی زاویے سے تفتیش کرتی۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کے عقائد کیا ہیں؟ یہ روایتی اسلام سے کس طرح ملتے جلتے اور کس طرح بالکل مختلف ہیں؟ اگر انہیں کوئی شکایتیں ہیں تو وہ کیا ہیں؟ امن و امان کی طرف جانے سے پہلے، یہ تمام چیزیں سمجھی جانی چاہیئے تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک اس مخصوص زاویے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شیہو ثانی نے بوکو حرام کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ۔ نائجیریا کی سول رائٹس کانگریس کہتے ہیں کہ اس گروپ کی بنیاد پرستی میں نائجیریا کے ایک نسل کو جو حالات سے غیرمطمئن ہے، بڑی کشش ہے۔’’ان کا تبلیغ کا طریقہ ہمیشہ با اختیار طبقے کے خلاف رہا ہے ۔ اور یہاں میرا مطلب صرف سیاسی اختیار سے نہیں ہے بلکہ مذہبی با اختیار طبقے سے بھی ہے جس کی نمائندگی شمالی نائجیریا کے سلطان اور امیر کرتے ہیں۔ نائجیریا کے شمالی حصوں میں ہم نے انتہا پسند مسلمانوں کی ایک نئی نسل کا ارتقا دیکھا ہے جس نے مسلح جد وجہد کی راہ اختیار کی ہے۔‘‘
کہتے ہیں کہ حکومت نے تیل کی دولت سے مالا مال نائیجر ڈیلٹا میں عسکریت پسندوں کو عام معافی کی جو پیشکش کی، اس سے بوکو حرام کے مسئلے کی نوعیت بدل گئی۔’’جن لوگوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے انہیں راضی کرنے کے لیے پیسے کے استعمال سے دوسرے لوگوں کے لیے یہ کہنا آسان ہو گیا کہ مجھے اپنی بات سنانے کے لیے ضروری ہے کہ میں بھی ہتھیار اٹھا لوں۔ بوکو حرام کی سوچ اب یہ ہو گئی ہے کہ حکومت صرف اسی صورت میں انُھیں سنجیدگی سے لے گی اگروہ سرکاری اہداف سے ہٹ کر بین الاقوامی اداروں کو جیسے اقوام متحدہ کو نشانہ بنائیں۔ اس طرح ان کا پیغام ساری دنیا کو پہنچ جائے گا اور حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔‘‘
ثانی کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ بوکو حرام سیکورٹی فورسز پر حاوی ہو گئی ہے، خاص طور سے اس لیے کہ شمالی علاقوں کے بعض گورنروں اور ملٹری کمانڈروں کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔’’
نائجیریا کی سیکورٹی فورسز ذہنی اعتبار سے اور سازو سامان کے لحاظ سے، اس قسم کے تشدد سے نمٹنے کی اہل نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جو لوگ بم لگا رہے ہیں، اور حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں، ان کے پاس سیکورٹی ایجنسیوں کے مقابلے میں پیسہ زیادہ ہے اور اثر و رسوخ اور عزم و حوصلہ بھی۔ کوئی بھی بوکو حرام کے راز افشا کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ کیوں کہ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ خود کو بوکو حرام کی طرف سے بہت زیادہ خطرے میں ڈال دیتے ہیں، اور کوئی حکومت آپ کی حفاظت کرنے نہیں آئے گی۔‘‘
اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ صدر جوناتھن کی حکومت کی مدد کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے بوکو حرام کو پیسے کی فراہمی کا پتہ چلانے کے لیے ایک پروگرام سے کام لے رہی ہے جو نیو یارک اور واشنگٹن پر گیارہ ستمبر ، 2001 کے حملوں کے بعد قائم کیا گیا تھا ۔ امریکہ کے محکمۂ خزانہ کاکہنا ہے کہ اس پروگرام سے نائجیریا کے دارالحکومت میں گذشتہ اکتوبر کے یوم آزادی پر بمباری کی تفتیش میں بھی مدد مل رہی ہے۔