امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں ہیں جس کی وضاحت انہوں نے سخت مالیاتی پابندیوں کے طور پر کی ہے۔ ان پابندیوں کا بطور خاص ہدف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں۔
صدر ٹرمپ نے آج پیر کے روز ایک ایکزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات خامنہ ای اور دنیا کی مالیاتی منڈیوں تک ایران رسائی پر پڑیں گے۔
وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے کہا ہے کہ ان پابندیوں سے عملی طور پر ایران کے سینکڑوں ارب ڈالر کے اثاثوں تک اس کی رسائی ختم ہو جائے گی۔
ان پابندیوں کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔
امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اپنے اس حکم نامے کو تہران کی جانب سے پچھلے ہفتے بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے امریکی ڈرون مار گرانے کا سخت اور مناسب ردعمل قرار دیا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ مار گرائے جانے کے وقت ڈرون آبنائے ہرمز کے قریب بین الاقوامی فضاؤں میں تھا جب کہ ایران کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسے اپنی فضائی حدود میں گرایا تھا۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایران پر دباؤ جاری رکھیں گے اور اسے کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے جو امریکہ اور دنیا کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
اس سے پہلے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سعودی عرب میں بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جس میں میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے امور بھی بات ہوئی۔
اس سے قبل جمعے کے روز صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انھوں نے ڈرون مار گرائے جانے کے بعد جوابی کارروائی کے طور پر ایران کے متعدد مقامات پر حملوں کا فیصلہ کیا جسے عین وقت میں انھوں نے اس لیے واپس لے لیا تھا تاکہ بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔
صدر ٹرمپ نے اس بارے میں اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’امریکہ نے ایران کے تین مختلف اہداف کو اپنے نشانے پر رکھ لیا تھا لیکن جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس حملے میں کتنے افراد ہلاک ہوں گے تو جنرل نے جواب دیا کہ 150 افراد، حملے سے دس منٹ قبل میں نے انھیں روک دیا۔‘
ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدگی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے۔ رواں ماہ کے آغاز پر امریکہ نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنٰی بھی ختم کر دیا تھا۔
امریکہ کا یہ موقف ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے جب کہ وہ خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔
ایران ان امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔
خطے میں کشیدگی کے باعث امریکہ نے جنگی بیڑے اور فوجی بھی مشرق وسطیٰ بھیج دیے ہیں۔