ناسا کی خلائی گاڑی نیو ہورائزن نے کامیابی سے اپنے سفر کا انتہائی اہم مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کامیاب مشن نے پلوٹو کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے،کہ یہ دور کی دنیا میں صرف ایک برف کا گولا ہے جبکہ اس میں مختلف اقسام کی ارضیاتی خصوصیات کا انکشاف ہوا ہے۔
پلوٹو نظام شمسی سے باہری علاقے یا تیسرے زون کوئپر پٹی میں پایا جانے والا سب سے بڑا سیارچہ ہے جو اب تک دریافت ہوا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ منگل کو نیو ہورائزن کی آمد کے ساتھ ہی نظام شمسی کے نقشے پر بنی نوع انسان کی جدوجہد کی تکمیل درج ہوئی ہے جبکہ اس کو تیسرے زون میں تحقیق کے آغاز کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا۔
نظام شمسی کا پہلا اور دوسرا زون زمین اور زحل جیسے سیاروں کا احاطہ کرتا ہے جبکہ اس کے تیسرے زون کو کوئپر پٹی کہا جاتا ہے۔ اس برفیلی دنیا میں اجسام، شہاب ثاقب اور دمدار ستارے اور سیارچے شامل ہیں، لیکن فی الحال پلوٹو تمام سیاروں کے مقابلے میں بڑا سیارہ مانا جاتا ہے جو سورج سے اربوں میل کی دوری پر گردش کر رہے ہیں۔
ایجنسی کے سربراہ جان گرنس فیلڈ نے کہا کہ یہ انسانی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تصاویر اور اعداد و شمار سے بھرا ہے اور ہمارے لیے اب انتظار بہت مشکل ہے ۔
نیو ہورائزن کی رفتار اتنی تیز ہے کہ یہ پلوٹو کے قریب پہنچ کر اس کے گرد چکر نہیں لگا سکے گا بلکہ اس مقام پر پہنچ کر کچھ ہی دیر میں آگے بڑھ گیا ہو گا۔
پلوٹو سے قریب ترین مقام پر پہنچنے سے پہلے خلائی جہاز بونے سیارے کی تصاویر اکھٹی کرنے کے لیے'خاموش پرواز موڈ' پر چلا گیا تھا۔
اس کے خاموش پرواز موڈ میں داخل ہونے سے تھوڑی دیر پہلے معلومات کی آخری کھیپ میں پلوٹو کی 600 پکسل کی مکمل تصویر موصول ہوئی تھی۔
ناسا کے سائنس دان آنے والے ہفتے میں مزید تصاویر موصول ہونے کی امید کر رہے ہیں کیونکہ 3.9 ارب میل سے زمین پر واپس سفر کرنے کے لیے نیو ہورائزن سے پیغامات کو پہنچنے میں ساڑھے چار گھنٹے لگتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ پیغامات اور تصاویر دور کی اجنبی دنیا کی پہلی جھلک ہو گی۔
پلوٹو کی اجنبی دنیا کی کھوج
خلائی ادارے ناسا کے مطابق، پلوٹو کے قریب سے گزرنے پر ہورائزن مشن نے جہاز کے آلات کا استعمال کیا ہو گا، جس میں تین بصری آپٹیکل، ڈسٹ سینسر اور ریڈیو سائنس ریسیور وغیرہ شامل ہیں، جس نے پلوٹو کے ماحول، درجہ حرارت اور اس کے ساتھ ساتھ ارضیات اور ساخت کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تصاویر جمع کی ہوں گی۔
خلائی جہاز نے فی الحال دور کی اجنبی دنیا پلوٹو کی پیمائش لینے کا کام کیا ہے اور اربوں میل کی دوری سے لی گئی تصاویر کے ذریعے پلوٹو کی سطح پر موجود چٹانوں، بڑے شگافوں اور پہاڑی سلسلوں سمیت پانی اور متھین برف کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
نیو ہورائزن سے موصول ہونے والی تازہ ترین تصاویر سے انکشاف ہوتا ہے کہ پلوٹو کی برفیلی سطح پہاڑوں سے ڈھکی ہوئی ہے جن کے بارے میں ناسا کا خیال ہے کہ یہ ہمارے نظام شمسی کے مقابلے میں نئے ہیں اور تقریبا 100 برس پہلے قائم ہوئے ہیں۔
پلوٹو کے نزدیک گردش کرنے سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے لی گئی تصاویر کے مطابق پلوٹو کی سطح پر متھین برف کافی موجود ہے لیکن برف کی مقدار پلوٹو کے مختلف حصوں میں اختلافات کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بونے سیارے کے شمالی قطب میں متھین نائٹروجن برف کی موٹی اور شفاف سلوں میں گھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے، جو انفرا ریڈ روشنی کو زیادہ جذب کرتی ہے لیکن پلوٹو کے ایک استوائی حصے میں متھین برف کم ہے، وہاں انفرا ریڈ روشنیوں کا جذب کم تھا اور یہ نائٹروجن میں کم گھلی ہوئی ہے جس سے یہاں متھین برف کی مختلف ساخت کی نشاندھی ہوئی ہے۔
ناسا کے نیو ہورائزن مشن نے پلوٹو کے بارے میں بنیادی سوالات میں سے ایک یعنی اس کے حجم کے بارے میں جواب دے دیا ہے۔
ان تصاویر میں پلوٹو حیرت انگیز طور پر سیارہ مریخ کی طرح سرخ ظاہر ہوا ہے،اس کی سطح پر دائیں جانب علاقہ نیلا لگ رہا ہے اور وسط عرض بلد ہلکا نیلا اور لال رنگ کا جبکہ تصویر کا اوپری حصہ زرد اور نارنجی رنگوں کے مختلف رنگوں کے ساتھ ٹھیک ٹھاک اجزاء کے اختلافات کی نشاندھی کرتے ہیں۔
پلوٹو کے سائز کے بارے میں اس کی دریافت سے بحث ہوتی رہی ہے۔ مشن کے سائنس دانوں کے مطابق پلوٹو سوچ سے زیادہ بڑا ثابت ہوا ہے اس کا قطر 1473 میل کا ہے اور پہلے کی پیشن گوئی کے برعکس یہ 50 میل یا 80 کلومیٹر وسیع ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق پلوٹو کے نئے اندازے کے سائز کے مطابق اس کی کثافت پہلے کے مقابلے میں تھوڑی ہے اور اس کے اندر برف کا حصہ اندازے سے تھوڑا زیادہ ہے۔
پلوٹو کے چاند کی تسخیر
ناسا نے جولائی 13 کو پلوٹو اور اس کے سب سے بڑے چاند کیرن کی تصاویر جاری کی تھیں جس میں اس کے ارضیاتی ڈھانچے اور گہرائی کو دیکھا جا سکتا ہے.
پلوٹو کے سب سے بڑے چاند کیرن کی نئی غیر معمولی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ یہاں 600 میل تک ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہاڑی سلسلے ہیں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ کسی اندرونی عمل کے نتیجے میں یہاں چاند کی پرت میں دراڑ پیدا ہوئی ہے۔
رنگین تصاویر میں پلوٹو کا دل اصل میں دو قابل ذکر مختلف رنگوں کے علاقوں پر مشتمل ہے اور اس کے دل کے روشن حصے کے خطے کی خصوصیات میں اختلاف ہے۔
سائنس دان پلوٹو اور اس کے چاند کیرن کے درمیان ظاہری فرق کو حیرت انگیز قرار دے رہے ہیں پلوٹو سے قریب گردش سے پہلے جمع ہونے والی معلومات کے مطابق پلوٹو کا رنگ سرمئی جبکہ اس کے چاند کا رنگ سرخ ہے جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے پلوٹو اور اس کے چاند کیرن کی متاثرکن تصاویر میں ان کے اجزاء کا تنوع ظاہر ہوا ہے۔
محققین کے مطابق یہ پلوٹو اور اس کے چاند کیرن کا اصل رنگ نہیں ہے لیکن یہ مبالغہ آمیز رنگوں میں ظاہر ہوئے ہیں، ماہرین سمجھتے ہیں کہ سورج کی روشنی کے کیمیائی عمل نے پلوٹو کی سطح پر سرخ مرکبات پیدا کیے ہوں گے۔
پلوٹو کے چھوٹے چاند نکس اور ہائیڈار چاند کی بھی وضاحت کی ہے۔
تصاویر میں ہائیڈار چاند کی تصاویر پکسل کے ساتھ موصول ہوئی ہیں تاہم کچھ پکسل جنھیں دیکھا جا سکے سائنس دان کو بتاتے ہیں کہ یہ ایک ناہموار سائز کا پتھر ہے جس کی سطح پر روشنی کی انتہائی مختلف مقدار ہے۔
نیو ہورائزن 2006ء میں فلوریڈا کے کیپ کینورل خلائی اسٹیشن سے زمین سے خلاء کی طرف روانہ کیا گیا تھا اس خلائی جہاز نے پلوٹو تک پہنچنے کے لیے تقریبا ایک دہائی اور تین ارب میل کا فاصلہ طے کیا ہے۔
پلوٹو کے پاس سے گزرنے کے بعد خلائی گاڑی کا رخ کوئپر پٹی کے دوسرے حصے کی طرف ہے جہاں یہ اپنا سفر جاری رکھے گا اور آخر میں نظام شمسی کو چھوڑ دے گا۔